حق گوئی کا شیوہ ترک کر دینا اچھی بات نہیں
ایک نیک اور ایماندار شخص سے اس وقت کا بادشاہ ناراض ہو گیا اور بادشاہ کی ناراضگی کی وجہ صرف یہی تھی کہ اس نے بادشاہ کے سامنے حق بات کہہ دی تھی۔
بادشاہ کو اس کی حق گوئی پسند نہیں آئی اور اس نے اسے گستاخ خیال کیا اور اسے قید خانے میں قید کروا دیا وہ نیک اور ایماندار شخص اس قید خانے میں بہت خوش تھا اور قید خانے کی تنگ و تاریک کوٹھری میں بھی پرسکون تھا اگر کوئی اس سے ملاقات کے لیے آتا تو وہ نہایت خوش دلی سے اس کا استقبال کرتا اور قید خانے کی سختیوں کے متعلق کوئی گلا شکوہ نہ کرتا اور کہتا کہ یہ مشکل عنقریب ختم ہو جائے گی۔
بادشاہ کو جب اس شخص کی باتوں کی خبر ہوئی تو بادشاہ اپنے رفقا سے ہنس کر کہنے لگا کہ یہ اس بیوقوف کی بھول ہے کہ وہ اس قید خانے سے باہر نکل آئے گا اب اس قید خانے سے اسے رہائی اس کی زندگی سے مشروط ہے۔بادشاہ کی اس بات کی خبر جب اس شخص کو ہوئی تو اس نے مسکرا کر کہا کہ اس سودے میں بھی کوئی خسارہ نہیں ہے بلکہ یہ تو میرے لیے باعث نفع ہے میں جب اس ظلم کو برداشت کرتا ہوا مالک حقیقی کے روبرو پہنچوں گا تو یقینا اس کی رحمت سے نوازا جاؤں گا اور بادشاہ مالک حقیقی کے غضب کا شکار ہوگا۔
بادشاہ کو جب اس شخص کی اس بات کا علم ہوا تو وہ غصے میں بھر گیا اور اس نے حکم جاری کیا کہ اس شخص کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے کسی نے اس شخص سے کہا :کہ تمہیں چاہیے کہ تم احتیاط سے کام لیتے وہ بادشاہ وقت ہے تمہاری بات اسے گرا گزری ہے اس شخص نے بے پرواہی سے کہا کہ سزا کے خوف سے حق گوئی کا شیوہ ترک کر دینا اچھی بات نہیں اور میں بادشاہ کی اس سزا کو بھی ہنسی خوشی برداشت کر لوں گا۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک نیک اور ایماندار شخص کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی حق گوئی کی وجہ سے بادشاہ نے اسے قید میں ڈلوا دیا وہ شخص بادشاہ کی اس سزا سے پریشان نہ ہوا اور اس نے اس سزا کو ہنسی خوشی قبول کر لیا پس جان لینا چاہیے کہ خواہ کیسی ہی مصیبت کیوں نہ ان پڑے حق گوئی کا شیوہ ترک نہیں کرنا چاہیے کسی ظالم اور جابر کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد ہے اور ہمارے آقا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی یہی ہیں۔