غرور و تکبر کی نشانی

غرور و تکبر کی نشانی

ایک روز قاضی کی عدالت میں کسی علمی مسئلے پر گفتگو ہو رہی تھی اس دوران ایک مفلوک الحال درویش عدالت میں داخل ہوا اور مناسب جگہ پر بیٹھ گیا۔

حاضرین محفل نے اس کی ظاہری حالت سے اس کی معمولی حیثیت کا اندازہ لگایا اور اسے اس جگہ سے اٹھا کر جوتوں کے پاس جگہ دے دی وہ درویش اس رویے سے دلبر داشتہ ہوا مگر خاموش رہا اس وقت جس علمی مسئلے پر گفتگو ہو رہی تھی کوئی بھی اس مسئلے کا مناسب حل بتانے سے عاجز رہا۔

پھر ایک وقت آیا کہ وہ غصے میں بھر گئے اور ایک دوسرے کو لاجواب کرنے کی کوشش کرنے لگے ان کی گردنوں کی رگیں پھول گئیں اور منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو گیا۔

وہ درویش اس دوران خاموش بیٹھا ان کی گفتگو سنتا رہا پھر بلند آواز سے بولا کی اگر تم لوگ اجازت دو تو میں اس موضوع پر کچھ عرض کروں قاضی نے اس درویش کو اجازت دے دی۔

اس درویش نے دلائل کے ساتھ اس مشکل علمی مسئلے کو بیان کر دیا اور اس کا جواب سن کر سب حیران رہ گئے حاضرین محفل کو اس درویش کی علمی قابلیت کا اندازہ ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ مفلوک الحال درویش کوئی بہت بڑا عالم ہے۔غرور و تکبر کی نشانیقاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنی دستار اتار کر اس درویش کو دی اور کہنے لگا کہ صد افسوس ہم آپ کے علمی مرتبے سے آگاہ نہ ہو سکے آپ اس دستار کے زیادہ حقدار ہیں درویش نے قاضی کی دستار لینے سے انکار کر دیا۔

اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا کہ میں غرور و تکبر کی اس نشانی کو ہرگز اپنے سر پر نہ رکھوں گا یاد رکھو کہ انسان کا رتبہ بہتر لباس نہیں بہتر علم سے ہوتا ہے اور کوئی شخص صرف سر بڑا ہونے کی وجہ سے عالم نہیں بن جاتا اور کدو کا اثر سب سے بڑا ہوتا ہے۔

وجہ بیان

حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک درویش کا قصہ بیان کر رہے ہیں جو قاضی کی عدالت میں بیٹھے تھے اور اس وقت کسی علمی مسئلے پر گفتگو ہو رہی تھی ان درویش کی مفلوک الحال دیکھ کر کوئی ان سے گفتگو کرنے کو روادار نہ تھا۔

پھر جب اسے علمی مسئلے پر محافل میں گرما گرمی بحث شروع ہو گئی تو ان درویش نے دلائل کے ساتھ اس علمی مسئلے کو بیان کر دیا قاضی نے اپنی دستار فضیلت ان درویش کو دینی چاہی تو انہوں نے یہ کہہ کر لوٹا دی کہ غرور و تکبر کی اس نشانی کو میں اپنے سر پر ہرگز نہیں باندھوں گا۔

بس یاد رکھنا چاہیے کہ انسان بہتر لباس سے عالم نہیں بنتا بلکہ اس کے لیے علم کا ہونا شرط ہے اس حکایت میں وہ مفلوق الحال درویش حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اجزوا انکساری اپنا نام بیان نہیں کیا آپ رحمۃ اللہ علیہ بلا شبہ علم کا خزانہ تھے اور اس کا بہترین ثبوت آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف بوستان سعدی اور گلستان سعدی ہیں جن سے آج ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی اہل علم کا سب فیض کرتے ہیںَ۔

موت ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top