fnani zaat ka hona hasti ko rad karna hai

فنانی ذات ہونا ہستی کو رد کرنا ہے

حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون دونوں ایک ہی حقیقت کے تابع ہیں اور بظاہر حضرت موسی علیہ السلام حق پر اور فرعون بے راہ ہے.

حضرت موسی علیہ السلام دن میں رب کے سامنے روتے تھے اور فرعون آدھی رات کو روتا تھا کہ اے اللہ میری گردن میں یہ کیسا طوق ہے؟

اگر طاق نہ ہوتا تو میں کون کہے گا تو نے موسی کو چاند جیسی شکل عطا فرمائی اور مجھے سیاہ روح کر دیا ہے میرا ستارہ چاند سے بہتر تھا لیکن اسے گرہن لگ گیا اس میں میرا کیا قصور؟

ہم دونوں ایک ہی ملک کے غلام ہیں لیکن تیرا کلہاڑا جنگل میں شاخ کو کاٹ دیتا ہے پھر ایک شاخ سے دوسری نئی شاخ پھوٹتی ہے اور دوسری تو بےکار کر دیتا ہے کیا شاخ کو کلہاڑے پر کوئی قدرت حاصل ہے۔

نہیں اس قدرت کے طفیل جو کہ تیرا کلہاڑا ہے کرم کر کے ان کجیوں کو سیدھا کر دے گا۔

پھر فرعون دل میں کہتا ہے کہ عجیب بات ہے کہ میں رات میں ربنا کہتا ہوں لیکن جب موسی کے سامنے جاتا ہوں تو مجھے کیا ہو جاتا ہے۔

کھوٹا سکہ خوب چمکدار ہوتا ہے لیکن جب آگ کے سامنے جاتا ہے تو کالا ہو جاتا ہے کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا قلب اور جسم اس کے فرمان کے تابع ہیں کی ایک لحظہ میں اسے بودا بنا دیا ہے اور ایک لحظہ میں اسے چھلکا بنا دیتا ہے اللہ جب کہے کی کھیتی بن جا میں سبز ہو جاؤں اور جب کہے کہ بدصورت بن جائے تو میں زرد ہو جاؤں۔

کن کے حکم کے آگے ہر کوئی مجبور ہے اور وہ حکم مکاں ولا مکاں میں ایک ساتھ کر فرما ہے بے رنگ جب رنگ کا پابند ہو گیا تو ایک موسی کا دوسرے موسی سے اختلاف ہو گیا وجود متعلق جب تعین کی قید سے آزاد ہوگا تو اختلاف ہوگا جب تو بے رنگ ہو جائے گا تو تجھے معلوم ہوگا کہ موسی اور فرعون باہم صلح رکھتے تھے۔

حیرانگی ہے کہ یہ رنگ بے رنگ سے پیدا ہوتا ہے تو بتاؤ رنگ بے رنگ سے مختلف کیوں ہوا تیل کا بیج پانی سے بڑھتا ہے لیکن پھر وہ پانی کا مخالف کیوں ہوتا ہے۔فنانی ذات ہونا ہستی کو رد کرنا ہےجب پھول کاٹے سے اور کانٹے پھول سے ہیں تو ان میں جنگ کیسی ہے یا پھر یہ جنگ نہیں ہے بلکہ کسی مصلحت کی وجہ سے دلالوں کی جنگ کی طرح مثنوی ہے حقیقت میں نہ یہ ہے نہ وہ ہے.

حیرانگی ہے ہماری ضرورت حقیقی خزانہ ہے تو خزانے تو ویرانوں میں ہوتے ہیں اور جس کو خزانہ سمجھ رہا ہے وہ تو تجھے اصل خزانے سے محروم کر رہا ہے وہاں اور خیال کو تو آبادی کی طرح جان جہاں خزانہ سمجھ رہا ہے وہ حقیقت میں تجھے خزانے سے محروم کیے ہوئے ہیں۔

وہم خیال اور تدبیر کو ابادی طرح کی سمجھ کی جہاں خزانہ نہیں ہے ابادی اور عمارت میں ہستی اور اختلاف ہوتا ہے اور پانی کو ہستیوں سے نفرت ہے فانی ذات ہونا ہستی کو رد کرنا ہے ایک قوم جلانے والی آگ میں پھلوں کی مانند ہوتی ہے اور ایک قوم باغ میں رنج اور درد محسوس کرتی ہے اہل اللہ کو اہل دنیا سے نفرت ہوتی ہے لیکن دیکھنے میں دنیادار انہیں ذلیل سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

وجہ بیان

مولانا رومی رحمہ اللہ علیہ شکایت میں حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کی دلی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دونوں ایک ہی حقیقت کے تابع تھے فرق صرف قلبی کیفیت کا تھا حق اور باطل جب ایک اللہ کے ہی بنائے ہوئے ہیں تو پھر یہ مخالفت کیسی ہے۔

فنانی ذات ہونا ہستی کو رد کرنا ہے اور فانی کو ہستیوں سے نفرت ہوتی ہے انسان فنا فی ذات ہو کر ہی اپنے مقصود حقیقی کو پا سکتا ہے جب رنگ اور بے رنگ اسی کے بنائے ہوئے ہیں تو پھر وہ ایک دوسرے کے مخالف کیوں ہیں جب پھول کانٹوں سے ہیں اور کانٹے پھولوں سے ہیں تو پھر ان میں یہ جنگ کیسی اہل اللہ کو اہل دنیا سے نفرت ہوتی ہے اور اہل دنیا اہل اللہ کو ذلیل و رسوا خیال کرتے ہیں۔

ایک درویش کا قصہ

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔