فرعون کا خواب
فرعون نے ایک بار خواب دیکھا کہ اس کا تخت اندھا ہو کر گر گیا ہے فرعون نے کاہنوں سے اس کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو تیری حکومت کے زوال کا باعث ہوگا۔
فرعون کو اس بات کی فکر ہوئی اور اس نے بچوں کو مروانا شروع کر دیا جو بچہ کسی کے ہاں پیدا ہوتا وہ اسے مروا دیتا حضرت موسی علیہ السلام جب پیدا ہوئے تو اللہ نے موسی علیہ السلام کی ماں کے دل میں ایک بات ڈال دی کہ اسے دودھ پلاؤ اور جب کوئی خطرہ دیکھو تو اسے دریا میں ڈال دو۔
چنانچہ چند روز حضرت موسی علیہ السلام کی ماں نے حضرت کو دودھ پلایا اس عرصہ میں حضرت موسی علیہ السلام نہ روتے تھے نہ ان کی گود میں حرکت کرتے تھے اور نہ آپ کی بہن کے سوا کسی کو آپ کی ولادت کا علم تھا پھر جب تین ماہ کا عرصہ گزر گیا تو موسی علیہ السلام کی ماں کو کچھ خطرہ محسوس ہوا تو خدا نے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اب تو موسی کو ایک صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دے اور کوئی فکر نہ کر ہم اسے پھر تمہاری گود میں لے آئیں گے۔
چنانچہ ام موسی نے ایک صندوق تیار کیا اور اس میں روئی بچھائی اور موسی علیہ السلام کو اس میں رکھ کر صندوق بند کر دیا اور یہ صندوق دریا نیل میں ڈال دیا اس دریا نے ایک بڑی نہر نکل کر فرعون کے محل میں گزرتی تھی۔
فرعون اپنی بیوی اسیہ کے ساتھ نہر کے کنارے بیٹھا تھا جب ایک صندوق نہر میں آتے دیکھا تو اس نے کنیزوں اور غلاموں کو صندوق نکالنے کا حکم دیا وہ صندوق نکال کر سامنے لایا گیا کھولا تو اس میں ایک نورانی شکل فرزند جس کی پیشانی سے وجاہت و اقبال کے اثار نمودار تھے نظر آیا دیکھتے ہی فرعون کے دل میں ایسی محبت پیدا ہوئی کہ وہ وارفتہ ہو گیا۔
لیکن قوم کے لوگوں نے اسے ورغلایا اور کہا: کہ ممکن ہے یہی وہ بچہ ہے جس نے آپ کی حکومت کو برباد کرنا ہے چنانچہ فرعون آپ کے قتل پر امادہ ہوا تو فرعون کی بیوی آسیہ جو بڑی نیک خاتون تھی کہنے لگی کہ یہ بچہ میری اور تیری آنکھ کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کر کیا معلوم یہ کس سرزمین سے بہتا ہوا آیا ہے اور تجھے جس بچہ سے اندیشہ ہے وہ تو اسی ملک کی بنی اسرائیل سے بتایا گیا ہے آسیہ کی یہ بات فرعون نے مان لی اور حضرت موسی علیہ السلام فرعون کے محل میں ہی رہنے لگے۔
اور فرعون نے آپ کو دودھ پلانے کے لیے دائیاں بلوائیں مگر حضرت موسی علیہ السلام کسی دائی کا دودھ نہ پیتے تھے اب فرعون کو فکر ہوئی کی اس بچہ کے لیے کوئی ایسی داعی ملے جس کا یہ دودھ پینے لگے ادھر حضرت موسی علیہ السلام کی ماں اپنے بچے کی جدائی میں بے قرار تھی اور حضرت موسی علیہ السلام کی بہن جس کا نام مریم تھا وہ آپ کے تجسس کرنے اور معلوم کرنے کی صندوق کہاں پہنچا اور آپ کس کے ہاتھ آئے آپ کی تلاش میں تھی حتی کہ یہ پتہ چلاتے چلاتے وہ فرعون کے محل میں پہنچ گئی۔
اور جب معلوم ہوا کہ میرا بھائی اسی محل میں ہے اور کسی دائی کا دودھ نہیں پی رہا ہے تو فرعون سے کہنے لگی کیا میں ایک ایسی دائی کی خبر دوں جس کا دودھ یہ بچہ ضرور پیے گا فرعون نے کہا ہاں ضرور ایسی دائی کو لاؤ۔
چنانچہ وہ اس کی خواہش پر اپنی والدہ کو بلا لائی اور جب وہ ائیں تو موسی علیہ السلام فرعون کی گود میں تھے اور دودھ کے لیے رو رہے تھے فرعون آپ کو بہلا رہا تھا جب آپ کی والدہ آئی اور آپ نے ان کی خوشبو پائی تو آپ چپ کر گئے اور اپنی والدہ کا دودھ پینے لگے۔
فرعون نے پوچھا: تو اس بچہ کی کون ہے جو اس نے کسی دائی کا دودھ نہیں پیا اور تیرا جھٹ پی لیا انہوں نے کہا: میں ایک پاک صاف عورت ہوں میرا دودھ شفاف خوشگوار ہے جسم خوشبودار ہے اسی لیے جن بچوں کے مزاج میں نفاست ہوتی ہے وہ اور عورتوں کا دودھ نہیں پیتے ہیں میرا دودھ پی لیتے ہیں فرعون نے بچہ انہیں دیا اور دودھ پلانے پر انہیں مقرر کر کے فرزند کو اپنے گھر لے جانے کی اجازت دے دی۔
چنانچہ آپ موسی علیہ السلام کو گھر لے آئیں اور اللہ تعالی کا یہ وعدہ پورا ہو گیا کہ ہم اسے پھر تمہاری گود میں لائیں گے اس طرح موسی علیہ السلام کی پرورش خود فرعون ہی کے ذریعے ہونے لگی آپ دودھ پینے کے زمانے تک اپنی والدہ کے پاس رہے اس زمانے میں فرعون انہیں ایک اشرفی روزانہ دیتا رہا دودھ چھڑانے کے بعد اپ موسی علیہ السلام کو فرعون کے پاس لے ائیں اور آپ وہاں پرورش پاتے رہے۔
(قرآن پاک)
سبق
اللہ تعالی بڑی قدرت اور بے نیازی کا مالک ہے کہ موسی علیہ السلام کو خود فرعون ہی کے محل میں رکھ کر ان کی پرورش فرمائی اور موسی علیہ السلام نے اپنے بچپن میں کسی دائی کا دودھ نہ پیک کر اور اپنی ماں کو پہچان کر انہیں کا دودھ پی کر یہ بتا دیا کہ نبی بچپن میں بھی ایسا علم و عرفان رکھتا ہے جس سے عوام محروم ہوتے ہیں۔
انبیاء کو اپنے مثل بشر کہنے والوں میں سے اگر کسی کو بچپن میں کتیا کے دودھ پر بھی ڈالا جائے تو وہ اس کو دیا کا بھی دودھ پینا شروع کر دے گا مگر نبی کی شان علم یہ ہے کہ وہ بچپن میں اپنی ماں کے سوا کسی دوسری عورت کا بھی دودھ نہیں پیتا پھر انبیاء کی مثل ہونے کا دعوی کرنا کس قدر جہالت کی بات ہے۔