فاروق اعظم اور ایک بدو
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ خلافت میں بسا اوقات رات کو چوکیدار کے طور پر شہر کی حفاظت بھی فرماتے تھے ایک مرتبہ ایسی حالت میں ایک میدان میں گزر گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک خیمہ بالوں کا لگا ہوا ہے جو پہلے وہاں نہیں تھا اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک صاحب وہاں بیٹھے ہیں اور خیمہ سے کچھ کراہنے کی آواز آرہی ہے۔ سلام کر کے ان صاحب کے پاس بیٹھ گئے۔
اور دریافت کیا: کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ایک مسافر ہوں جنگل کا رہنے والا ہوں امیرمومنین کے سامنے کچھ اپنی ضرورت پیش کر کے مدد چاہنے کے واسطے آیا ہوں دریافت فرمایا: کہ یہ خیمہ سے آواز کیسی آرہی ہے ان صاحب نے کہا: میاں جاؤ! اپنا کام کرو آپ نے اصرار فرمایا: کہ نہیں بتا دو کچھ تکلیف کی آواز میں ان صاحب نے کہا: کہ میری بیوی ہے اور ولادت کا وقت قریب ہے درد زہ ہو رہا ہے آپ نے دریافت فرمایا: کہ کوئی دوسری عورت بھی پاس ہے انہوں نے کہا: کوئی نہیں۔
آپ وہاں سے اٹھے اور اپنے مکان میں تشریف لے گئے اور اپنی بیوی حضرت ام کلثوم سے فرمایا: کہ ایک بڑے ثواب کی چیز مقدر سے تمہارے لیے آئی ہے انہوں نے پوچھا کیا ہے؟ فرمایا: ایک گاؤں کی رہنے والی بیچاری تنہا ہے اس کو درد زہ ہو رہا ہے انہوں نے کہا: ہاں ہاں آپ کی صلاح ہے تو میں تیار ہوں حضرت عمر نے فرمایا: کہ ولادت کے وقت جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہو تیل گڑ وغیرہ لے لو اور ایک ہانڈی اور کچھ بھی اور دانے وغیرہ بھی ساتھ لے لو وہ لے کر چلیں۔
حضرت عمر خود پیچھے پیچھے ہوئے وہاں پہنچ کر حضرت ام کلثوم تو خیمہ میں چلی گئی اور آپ نے آگ جلا کر اس ہانڈی میں دانے ابالے گھی ڈالا اتنے میں ولادت سے فراغت ہو گئی اندر سے حضرت کلثوم نے آواز دے کر عرض کیا: امیر المومنین اپنے دوست کو لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دیجئے۔
امیر المومنین کا لفظ جب ان صاحب کے کان میں پڑا تو وہ گھبرائے آپ نے فرمایا: گھبرانے کی بات نہیں وہ ہانڈی خیمہ کے پاس رکھ دی کہ اس عورت کو بھی کچھ کھلاوے حضرت ام کلثوم نے اس کو کھلایا: اس کے بعد ہانڈی باہر کر دی حضرت عمر نے اس بدو سے کہا: کہ لو تم بھی کھاؤ رات بھر تمہاری جاگنے میں گزر گئی اس کے بعد اہلیہ کو ساتھ لے کر گھر تشریف لائے اور ان صاحب سے فرما دیا کہ کل آنا تمہارے لیے انتظام کر دیا جائے گا۔
(حکایت صحابہ)
سبق
قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے اور اس حقیقت کا اظہار خلفائے راشدین کے عہد میں خوب ہوا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اتنی بڑی بلند شان کے باوجود ایک غریب بدو کی رات بھر خدمت کرتے رہے ہیں۔
بھلا اس زمانہ میں کوئی بادشاہ یا رئیس نہیں کوئی معمولی حیثیت کا مالدار بھی ایسا ہے جو غریب کی ضرورت میں مسافر کی مدد کے واسطے اس طرح بیوی کو جنگل میں لے جائے اور خود چولہا دھوک کر جلائے پکائے مسلمانوں کو اپنے ان بزرگوں کی سیرت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔