فقیر صفت بادشاہ
بزر جمہر نے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنا ایک قاصد بھیجا تاکہ وہ دیکھ کر آئے کہ مسلمانوں کے اتنے بڑے جلیل القدر بادشاہ کی صورت و سیرت کیسی ہے چنانچہ وہ قاصد مدینہ منورہ میں پہنچا تو مسلمانوں سے پوچھنے لگا: کی تمہارا بادشاہ کہاں ہے مسلمانوں نے جواب دیا وہ ہمارا بادشاہ نہیں بلکہ ہمارا امیر ہے اور ابھی ابھی گھر سے باہر تشریف لے گیا ہے۔
وہ قاصد بھی پیچھے گیا اور کیا دیکھتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک جگہ دھوپ میں سو رہے ہیں درا سر کے نیچے رکھا ہے اور پیشانی نورانی سے ایسا پسینہ بہا ہے کی زمین پر ہو گئی ہے قاصد نے جب یہ حال دیکھا تو اس کے دل پر بڑا اثر ہوا اور سوچنے لگا: کہ تمام دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ جس کی ہیبت سے لرزہ براندام ہیں تعجب ہے کہ وہ اس فقیرانہ صفت پر ہے۔
پھر عرض کرنے لگا: اے امیر المومنین! آپ نے عدل کیا اس وجہ سے بے کھٹکے سوئے اور ہمارا بادشاہ ظلم کرتا ہے اسی لیے خواہ مخواہ ہراساں رہتا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ تمہارا دین سچا ہے اگر میں قاصد بن کر نہ آیا ہوتا تو ابھی مسلمان ہو جاتا مگر اب میں پھر حاضر ہو کر مسلمان ہوں گا۔
(کیمیائے سعادت)
سبق
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ باوجود اتنی بڑی بلند شان کے اپنا مزاج زاہدانہ اور فقیرانہ رکھتے تھے اور اللہ والوں کی یہی سیرت ہوتی ہے۔