اعلان حق
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لے آئے اور مسلمان ہو گئے تو اسلام کی شوکت کو چار چاند لگ گئے اور کفر کے گھر صف ماتم مچ گئی مسلمانوں کی تعداد بھی بہت تھوڑی تھی اور مسلمان اپنے فرائض کی ادائیگی علی الاعلان نہ کر سکتے تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے داخل اسلام ہوتے ہی مسلمانوں میں ایک خاص جذبہ پیدا ہو گیا۔
اور حضرت عمر نے ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم دین حق پر ہیں اور کفار باطل پر تو ہم اپنے دین کو کیوں چھپائیں یا رسول اللہ! مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو دین برحق کے ساتھ بھیجا ہے مجھ سے وہ مجلس کبھی باقی نہیں رہ سکتی جس میں کفر کی مدد کے لیے نہ بیٹھا تھا مگر اب اسلام کے اظہار و امداد کے لیے ضرور بیٹھوں گا ۔
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجلس نبوی سے باہر نکلے اور خانہ کعبہ کا طواف کیا: آپ کعبہ کے ارد گرد گھوم رہے تھے اور کلمہ شریف زور زور سے پڑھ رہے تھے مشرکین مکہ یہ سن کر آپ پر جھپٹ پڑے اور سب نے مل کر حملہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تن تنہا سب کا مقابلہ کیا اور ان میں ایسے ایک مشرک کو گرا کر اس کے سینے پر چڑھ کر اپنی دونوں انگلیاں اس کے دونوں آنکھوں میں ڈال دیں۔
جو ہی وہ شخص چیخا تمام مشرکین حضرت عمر کے خوف سے بھاگ گئے اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان ہر مجلس میں آواز حق بلند کی اور کفار کو چیلنج دیا کہ جو شخص نبی برحق اور دین حق کی مخالفت کرے گا میری تلوار اس کا فیصلہ کرے گی۔
اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کوئی مجلس باقی نہیں رہی جس میں میں نے اعلان حق نہ کر دیا ہو یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور کعبہ کی طرف چلے اور آپ کے آگے آگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ چلے جاتے تھے اور پیچھے پیچھے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حتی کہ آپ نے خانہ کعبہ کا اعلانیہ طواف کیا اور مسلمانوں نے کھلم کھلا نماز پڑھی۔
(نزہۃ المجالس)
سبق
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی سے اسلام کو غلبہ حاصل ہوا اور یہ ساری برکتیں حضور ہی کی تھیں مگر ان کا ظہور حضرت عمر کے وجود سے ہوا پھر جسے حضرت عمر سے کوئی شکایت ہو تو اسے گویا غلبہ اسلام ہی کی شکایت ہے۔