ek sahrai qafila

ایک صحرائی قافلہ

ضرب کے ایک صحرا میں ایک بہت بڑا قافلہ راہ پیما تھا کہ اچانک اس قافلے کا پانی ختم ہو گیا اور اس قافلہ میں چھوٹے بڑے بوڑھے جوان اور مرد عورتیں سبھی تھے پیاس کے مارے سب کا برا حال تھا اور دور تک پانی کا نشان نہ تھا اور پانی ان کے پاس ایک قطرہ تک باقی نہ رہا تھا یہ عالم دیکھ کر موت ان کے سامنے رقص کرنے لگی مگر ان پر یہ خاص کرم ہوا کی۔

یعنی اچانک دو جہاں کے فریاد درس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مدد فرمانے وہاں پہنچ گئے حضور کو دیکھ کر سب کی جان میں جان آگئی اور سب حضور کے گرد جمع ہو گئے اور حضور نے انہیں تسلی دی اور فرمایا: کہ وہ سامنے جو ڈھیلا ہے اس کے پیچھے ایک سیاہ رنگ حبشی غلام اونٹنی پر سوار ہوئے جا رہا ہے اس کے پاس پانی کا ایک مشکیزہ ہے اس کو اونٹنی سمیت میرے پاس لے آؤ۔

چنانچہ کچھ آدمی تھےلے کے اس پار گئے تو دیکھا کہ واقعی ایک اونٹنی پر سوار حبشی جا رہا ہے اور اس حبشی کو حضور کے پاس لے آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حبشی سے مشکیزہ لے لیا اور اپنا دست رحمت اس مشکیزہ پر فیر کر اس کا منہ کھول دیا اور فرمایا: آؤ اب جس قدر بھی پیاسے ہو آتے جاؤ اور پانی پی پی کر اپنی پیاس بجھاتے جاؤ۔

ایک صحرائی قافلہچنانچہ سارے قافلے نے اس ایک مشکیزہ سے پانی جاری چشمہ رحمت سے پانی پینا شروع کیا اور پھر سب نے اپنے اپنے برتن بھی بھر لیے سب کے سب سیراب ہو گئے اور سب برتن بھی پراب ہو گئے حضور کا یہ معجزہ دیکھ کر وہ حبشی بڑا حیران ہوا اور حضور کے دست انور چومنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دست انور اس کے منہ پر پھیرا۔

اس حبشی کا سیاہ رنگ کافور ہو گیا اور وہ سفید پر نور ہو گیا پھر اس حبشی نے کلمہ پڑھ کر اپنا دل بھی منور کر لیا اور مسلمان ہو کر جب وہ اپنے مالک کے پاس پہنچا تو مالک نے پوچھا تم کون ہو وہ بولا تمہارا غلام ہوں مالک نے کہا تم غلط کہتے ہو وہ تو بڑا سیاہ رنگ کا تھا وہ بولا یہ ٹھیک ہے مگر میں اس منبع نور ذات بابرکات سے مل کر اور اس پر ایمان لایا ہوں جس نے ساری کائنات کو منور فرمایا ہے مالک نے سارا قصہ سنا تو وہ بھی ایمان لے آیا۔

(مثنوی شریف)

سبق

ہمارے حضور دو جہان کے فریاد درس ہیں اور مصیبت کے وقت مدد فرمانے والے ہیں پھر اگر کوئی شخص یوں کہے کہ حضور کسی کی مدد نہیں فرما سکتے اور کسی کی فریاد نہیں سنتے تو وہ کس قدر جاہل و بے خبر ہے بس اپنا عقیدہ یہ رکھنا چاہیے کہ۔

فریاد امتی جو کرے حال زار کی              ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top