ایک نہ پائدار زندگی میں کوئی چیز مستقل نہیں

ایک نہ پائدار زندگی میں کوئی چیز مستقل نہیں

ایک شہزور پہلوان اپنی ناداری سے بے حد پریشان تھا وہ کشتی کے داؤ پیچ کے علاوہ اور کوئی ہنر نہ جانتا تھا اور اس کے وطن میں اس فن کا کوئی قدردان نہ تھا وہ بے چارہ مٹی کھود کر بڑی مشکل سے پیٹ بھرتا تھا ناداری اور مفلسی کے ساتھ ساتھ اس پہلوان پر ایک بڑی مصیبت یہ آن پڑی کہ اس کے دل کا صبر و قرار بھی جاتا رہا۔

وہ پہلوان جب خوشحال لوگوں کو کھاتے پیتے دیکھتا تو اس کے دل میں حسد اور رشک کی آگ بھڑکنے لگتی وہ سوچا کرتا کہ آخر ان لوگوں میں ایسی کون سی خاص بات ہے جو یہ دن رات اس مزے میں ہیں اور مجھ میں وہ کون سی کمی ہے کہ میں اس نعمت سے محروم ہوں؟ اس کے شب و روز اسی سوچ اور اسی تکلیف میں گزرا کرتے تھے۔

ایک دن وہ پہلوان اپنے ان خیالات میں گم مٹی کھود رہا تھا کی شاید کوئی خزانہ میرے ہاتھ لگ جائے کہ اچانک اس کا پھاوڑا ایک سخت چیز سے ٹکرایا اس نے جھانک کر دیکھا کہ انسان کے جبڑے کی ہڈی تھی جو پھوڑے کی ضرب سے ٹوٹ گئی تھی پہلوان نے جبڑے کی ہڈی دیکھی تو غیر اختیاری طور اس کی سوچ کا زاویہ بدل گیا۔ایک نہ پائدار زندگی میں کوئی چیز مستقل نہیںاور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ جبڑے کی ہڈی اس سے کہہ رہی ہو کہ اے شخص! دیکھ کی مٹی میں مل کر انسان کا کیا حال ہو جاتا ہے اب یہ جبڑے کی ہڈی جو تیرے سامنے ہے شکر کھانے والا جان یا خون جگر پینے والا سمجھ دنیا میں اگر کوئی ایسا جو منو بوجھ اپنے سر پر دھوتا ہے یا کوئی ایسا مالدار جو نخوت کہ باعث خود کو اسمان کے برابر خیال کرتا ہے ان دونوں کا انجام ایک ہی ہے ہر قسم کی وجاہت مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتی ہے اور اس ناپائیدار زندگی میں کوئی چیز مستقل نہیں ما سوائے ان نیک اعمال کے جو تو نے کیے اور انہی نیک اعمال کی بدولت اخروی زندگی میں سکون اور آسودگی نصیب ہوگی۔

وجہ بیان

حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں آسودہ زندگی بسر کرنے کا بہترین اصول بیان کر رہے ہیں اور اس حکایت میں انہوں نے ایک پہلوان کا قصہ بیان کیا ہے جسے کشتی کے علاوہ کچھ نہ آتا تھا اسے مٹی کھود کر اپنا پیٹ بھرنا پڑتا تھا کہ اس کے ملک میں فن پہلوانی سے کوئی آشنا نہ تھا۔

ایک دن مٹی کھودتے ہوئے اس کا پاوڑا ایک انسان کے جبڑے کی ہڈی سے لگا جو پاوڑے کی ضرب سے ٹوٹ گیا وہ پہلوان سوچنے لگا کہ کل میں بھی مٹی میں مل کر ایسا ہی ہو جاؤں گا۔

بس یاد رکھو کی ماسوائے نیک اعمال کے اخروی زندگی میں کچھ کام آنے والا نہیں ہے دنیا کے مال و دولت اور اسائش ختم ہونے والی ہے اور نیک عمل ایسے ہیں جس کا اجر و ثواب دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی ملے گا۔

ضبط اور تحمل

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔