ایک بادشاہ اور اس کے غلام کا قصہ
ایک بادشاہ کا غلام فرار ہو گیا اس غلام کو ہر جگہ تلاش کیا گیا لیکن وہ ایسا ہوشیار نکلا کہ کسی کے ہاتھ نہ آیا اس دور میں غلام کا یوں مالک کے گھر سے فرار ہونا ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا تھا مفرور غلام جب بھی گرفتار ہوتا اسے قتل کر دیا جاتا بادشاہ کا یہ غلام بھی ایک عرصہ تک روپوش رہا اور اسے کوئی ایسا ٹھکانہ نہ ملا جہاں وہ اپنی جگہ آرام سے گزار سکتا اس پر ہر وقت تو یہی خوف طاری رہتا کہ بادشاہ کے سپاہی آئیں گے اور اسے پکڑ کر لے جائیں گے
اس غلام نے اس بے سکونی سے نجات پانے کے لیے فیصلہ کیا کہ مجھے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی اس غلطی کی معافی مانگنی چاہیے شاید اس کے دل میں اللہ عزوجل رحم ڈال دے اور وہ مجھے معاف کر دے وہ غلام اس سوچ کے ساتھ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہایت عاجزی کے ساتھ اس گستاخی کی معافی مانگی
بادشاہ کو چونکہ اس غلام سے نفرت ہو چکی تھی اس لیے اس نے اسے دیکھتے ہی حکم جاری کیا کہ اس کو قتل کر دیا جائے جلاد نے اسے غلام کو پکڑا اور قتل گاہ کی جانب لے چلا
اس غلام کی آنکھوں کے آگے قتل کا حکم سن کر اندھیرا چھا چکا تھا اسے یقین تھا کہ اب چند لمحوں بعد اس کا سر قلم کر دیا جائے گا
اس غلام نے اپنے حواس کو قابو میں کیا اور بارگاہ الہی میں یوں دعا کی اے اللہ! تو جانتا ہے کہ مجھے بے گناہ قتل کیا جا رہا ہے اور بادشاہ کو اس کے گناہ کی سزا نہ دینا میں اسے اپنا خون معاف کرتا ہوں کہ میں نے ایک عرصہ تک اس کا نمک کھایا ہے
جلاد اور بادشاہ کے مصاحبوں کے لیے یہ عجیب بات تھی کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ جسے موت کی سزا دی جاتی تھی وہ بادشاہ کو برا بھلا کہتا تھا اور خود گالیاں سناتا تھا
بادشاہ کے کانوں میں جب اس غلام کی فریاد پہنچی تو اس کی اس وفاداری سے خوش ہوا اور اس کے قتل کا حکم واپس لیتے ہوئے اسے آزاد کرنے کا حکم جاری کیا پھر بادشاہ نے اس غلام کو اپنے مصاحبوں میں شامل کر لیا اور خوب انعام و اکرام سے نوازا
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بادشاہ اور اس کے غلام کا قصہ بیان کر رہے ہیں کہ ایک بادشاہ کا غلام فرار ہو گیا اور پھر جب وہ بادشاہ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا تاکہ اپنی اس گستاخی کی معافی مانگ سکے تو بادشاہ نے اس کے قتل کا حکم جاری کر دیا اس غلام نے اس موقع پر دیگر لوگوں کی طرح گالی گلوچ کے بجائے بادشاہ کے حق میں دعا کی اور اس کی اس نرمی کی وجہ سے بادشاہ نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ اسے انعام و اکرام سے بھی نوازا
پس جو شخص بھی اپنے اندر نرمی اور شیری زبانی پیدا کرے گا وہ یقینا بارگاہ الہی میں انعام و اکرام کا حقدار ہوگا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم میں بہترین انسان وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور شاہ روم کا ایلچی