ایک عظیم الشان حکومت
حضرت سلیمان علیہ السلام کو نے ایک عظیم الشان حکومت عطا فرمائی تھی اور آپ کے بس میں ہوا کر دی تھی آپ ہوا کو جہاں حکم فرماتے تھے وہ ہوا آپ کے تخت کو اڑا کر وہاں پہنچا دیتی تھی اور جن و انسان اور پرندے سب آپ کے تعبع اور لشکری تھے آپ حیوانات کی بولیاں بھی جانتے تھے حضرت سلیمان علیہ السلام جب بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو آپ نے حرم شریف پہنچنے کا عزم فرمایا۔
چنانچہ تیاری شروع ہوئی اور آپ نے جنوں انسانوں پرندوں اور دیگر جانوروں کو ساتھ چلنے کا حکم دیا حتی کہ ایک بہت بڑا لشکر تیار ہو گیا یہ عظیم الشان لشکر تقریبا 30 میل میں پورا آیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا تو ہوا نے تخت سلیمان کو بے اس لشکر عظیم کو اٹھایا اور فورا حرم شریف میں پہنچا دیا حضرت سلیمان علیہ السلام حرم شریف میں کچھ عرصہ ٹھہرے اس عرصہ میں آپ مکہ معظمہ میں ہر روز پانچ ہزار اونٹ، پانچ ہزار گائے اور 20 ہزار بکریاں ذبح فرماتے تھے۔
اور اپنے لشکر میں ہمارے حضور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سناتے رہے کی یہی سے ایک نبی عربی پیدا ہوں گےجن کے بعد پھر کوئی اور نبی پیدا نہ ہوگا حضرت سلیمان علیہ السلام کچھ عرصہ کے بعد مکہ معظمہ میں مناسک ادا فرمانے کے بعد ایک صبح کو وہاں سے چل کر ملک یمن میں پہنچے۔
مکہ معظمہ سے یمن کا ایک مہینے کا سفر ہے اور آپ مکہ معظمہ سے صبح کو روانہ ہوئے اور صناؑ زوال کے وقت پہنچ گئے آپ نے یہاں بھی کچھ عرصہ ٹھہرنے کا ارادہ فرمایا یہاں پہنچ کر پرندہ ہد ہد ایک روز اوپر اڑا اور بہت اوپر تک جا پہنچا اور ساری دنیا کے تول کو دیکھا وہ ایک سرسبز باغ نظر آیا یہ باغ ملکہ بلقیس کا تھا اس نے دیکھا کہ ایک باغ میں ایک ہدہد بیٹھا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہدھد کا نام یعقور تھا یعقور کی اور یمنی ہدہد کی حسب ذیل گفتگو ہوئی۔
یمنی ہدہد نے کہا: بھائی تم کہاں سے آئے ہو اور کہاں جاؤ گے؟
یعفور نے کہا: میں ملک شام سے اپنے بادشاہ سلیمان کے ساتھ آیا ہوں۔
یمنی ہدہد: سلیمان کون ہے؟
یعفور وہ جنوں انسانوں، شیاطین، پرندوں، جانوروں اور ہوا کا ایک عظیم الشان فرما روا اور سلطان ہے اس میں بڑی طاقت ہے ہوا اس کی سواری ہے اور ہر چیز اس کے تابع ہے۔ اچھا تم بتاؤ کہ تم کس ملک کے ہو؟
یمانی ہدہد: میں اسی ملک کا رہنے والا ہوں ہمارے اس ملک کی بادشاہ ایک عورت ہے جس کا نام بلقیس ہے اس کے ماتحت 12 ہزار سپہ سالار ہیں اور ہر سپہ سالار کے ماتحت ایک ایک لاکھ سپاہی ہیں پھر اس نے یعفور سے کہا: تم میرے ساتھ ایک عظیم ملک اور لشکر دیکھنے چلو گے۔
یعفور: بھائی میرے بادشاہ سلیمان علیہ السلام کی نماز عصر کا وقت ہو رہا ہے اور انہیں وضو کے لیے پانی درکار ہوگا اور پانی کی جگہ بتانے پر میں معمور ہوں اگر دیر ہو گئی تو وہ ناراض ہوں گے۔
یمنی ہدہد: نہیں! بلکہ یہاں کے ملک اور فرما روا بلقیس کے مفصل خبر سن کر خوش ہوں گے۔
یعفور: اچھا تو چلو۔
دونوں اڑ گئے اور یافور ملک یمن کو دیکھنے لگا۔
اور ادھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے نماز عصر کے وقت ہدہد کو طلب فرمایا تو وہ غیر حاضر نکلا آپ بڑے جلال میں آگئے اور فرمایا: کیا ہوا کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا یا وہ واقعی حاضر نہیں ضرور میں اسے سخت عذاب کروں گا یا ذبح کروں گا یا کوئی روشن سند میرے پاس لائے۔
(قرآن کریم)
اور پھر عقاب کو حکم دیا کہ وہ اڑ کر دیکھے کہ ہدہد کہاں ہے چنانچہ عقاب اڑا اور بہت اوپر پہنچ کر ساری دنیا کو اس طرح دیکھنے لگا جس طرح آدمی اپنے ہاتھ کے پیالے کو دیکھتا ہے اچانک اسے ہدہد یمن کی طرف سے آتا ہوا دکھائی دیا اور عقاب فورا اس کے پاس پہنچا اور کہا: غضب ہو گیا اپنی فکر کر لے اللہ کے نبی سلیمان نے تمہارے لیے قسم کھا لی ہے کہ میں ہدہد کو سخت سزا دوں گا یا ذبح کر دوں گا۔
ہدہد نے ڈرتے ہوئے پوچھا: اور اللہ کے نبی نے اس حلف میں کسی بات کا اصطلاح بھی فرمایا ہے یا نہیں عقاب نے کہا: ہاں! یہ فرمایا ہے کہ یا کوئی روشن سند میرے پاس لائے۔
ہدہد نے کہا: تو پھر میں بچ گیا میں ان کے لیے ایک بہت بڑی خبر لے کر آیا ہوں پھر عقاب اور ہدہد دونوں بارگاہ سلیمانی میں حاضر ہوئے اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے جواب و جلال میں فرمایا ہدہد کو حاضر کرو۔
ہدہد بیچارہ دم بخود اپنی اپنی دم نیچے کیے ہوئے زمین سے ملتا ہوا اور کانپتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام کے قریب آیا تو حضرت سلیمان نے اس کو سر سے پکڑا اور اپنی طرف گھسیٹا اس وقت خود بخود نے کہا: حضور اللہ کے سامنے اپنی حاضری کو یاد کر لیجئے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ بات سن کر اسے چھوڑ دیا اور اسے معاف فرما دیا پھر ہدہد نے اپنی غیر حاضری کی وجہ بیان کی اور بتایا کہ میں ایک بہت بڑی ملکہ کو دیکھ کر آیا ہوں خدا نے اسے ہر قسم کا سامان عیش و عشرت دے رکھا ہے اور وہ سورج کی پجارن ہے اور اس کا ایک بہت بڑا تخت ہے۔
روایت ہے کہ یہ تخت سونے اور چاندی کا بنا ہوا تھا اور بڑے بڑے قیمتی جواہرات سے مرصع تھا بلقیس نے ایک مضبوط گھر بنوایا تھا جس گھر میں دوسرا گھر تھا پھر اس گھر کے اندر تیسرا گھر تھا اور پھر اس تیسرے گھر کے اندر چوتھا گھر تھا اور اسی طرح پھر اس میں پانچواں اور پانچویں میں چھٹا اور چھٹے میں ساتواں گھر تھا اس ساتویں گھر میں وہ تخت مقفل تھا۔
اور سات ہی غلاف اس تخت کو چڑھا رکھے تھے اور اس تخت کے چار عدد پائے تھے ایک پایا سرخ یاقوت کا دوسرا زرد یاقوت کا تیسرا سبز زمرد کا اور چوتھا سفید موتی کا تھا یہ تخت 80 گز لمبا 40 گز جوڑا اور 30 گج اونچا تھا بلقیس ساتویں گھر کے اندر رکھے ہوئے اس تخت عظیم پر بیٹھا کرتی تھی ہر گھر کے باہر سخت پہرا تھا اور بلقیس تک پہنچنا ایک دشوار امر تھا۔
ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بلقیس کی بات سنائی تو سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: میرا ایک خط لے جاؤ اور بالخیز کو پہنچا آؤ چنانچہ آپ نے ایک خط لکھا جس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر کہا: میرے معاملہ میں بڑائی ظاہر نہ کرو اور مسلمان بن کر میرے حضور حاضر ہو جاؤ۔
اور اس خط پر شاہی مہر سخت کر کے ہدہد کو دے دیا ہدہد گیا اور ساتوں گھروں کے بہروں سے بے نیاز ہو کر نبی کا یہ چٹھی رساں روشن دانوں میں سے گزرتا ہوا بلقیس تک پہنچا بلقیس اس وقت سو رہی تھی ہدہد وہ خط بلقیس کے سینے پر رکھ کر باہر نکل آیا۔
بلقیس جب اٹھی تو یہ خط پا کر گھبرائی اور اعیان سلطنت سے مشورہ طلب کیا۔ کہ کیا کیا جائے؟ وہ بولے: کی آپ ڈرتی کیوں ہیں ہم زور والے اور لڑنے میں ماہر ہیں سلیمان اگر لڑنا چاہتا ہے تو لڑے ہم شکست تسلیم نہیں کرتے آئندہ جو آپ کی مرضی اس نے کہا: کہ جنگ اچھی چیز نہیں بادشاہ جب کسی شہر میں اپنے زور و قوت سے داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں میرا خیال ہے یہ میں سلیمان کی طرف ایک تحفہ بھیجوں اور پھر دیکھوں کی سلیمان اسے قبول کرتے ہیں یا نہیں اگر وہ بادشاہ ہیں تو تحفہ قبول کر لیں گے اور اگر نبی ہیں تو میرا یہ تحفہ قبول نہ کریں گے اس کے بعد ان کے دین کا اتباع کیا جائے۔
چنانچہ بلقیس نے 500 غلام اور 500 بازیاں بہترین ریشمی لباس اور زیورات کے ساتھ آراستہ کر کے انہیں ایسے گھوڑوں پر بٹھایا جن کی کٹبہ سونے کی اور لگامیں جواہرات سے مرسع تھیں اور ایک ہزار سونے اور چاندی کی اینٹیں اور ایک تاج جو بڑے بڑے قیمتی موتیوں سے مزین تھا وغیرہ وغیرہ میں ایک خط کے اپنے قاصد کے ساتھ روانہ کیے۔
ہدہد دیکھ کر چل دیا اور سلیمان علیہ السلام کو سارا قصہ سنا دیا حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی جنی لشکر کو حکم دیا کہ سونے چاندی کی اینٹیں بنا کر چھ میل تک انہی اینٹوں کی سڑک بنا دی جائے اور سڑک کے ادھر ادھر سونے اور چاندی کی بلند دیواریں کھڑے کر دی جائیں اور سمندر کے جو خوبصورت جانور ہیں اسی طرح خشکی کے بھی جو خوبصورت جانور ہیں وہ سب حاضر کیے جائیں۔
چنانچہ آپ کے حکم کی تعمیل فورا کی گئی چھ میل سونے چاندی کی سڑک بن گئی اس سڑک کے دونوں طرف سونے چاندی کی دیواریں بن گئیں اور خشکی و تری کے خوبصورت جانور بھی حاضر کر دیے گئے اور پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے تخت کے دائیں جانب 4 ہزار سونے کی کرسیاں اور بائیں جانب بھیچار ہزار سونے کی کرسیاں رکھوائیں اور ان پر اپنے مقربین و خواص کو بٹھایا۔
اور اپنے جنی لشکر اور انسانی لشکر کو دور دور تک سب کا سب کھڑا کر دیا اور وحشی جانوروں اور درندوں اور چوپاؤں کو بھی سب وصف کھڑا کر دیا اس قسم کا شاہی دبدبہ اور جلال اور اس شان و شوکت کی حکومت چشم فلک نے کبھی نہ دیکھی ہی نہ تھی۔
بلقیس کا قاصد اپنے زعم میں بڑے قیمتی تحفہ لا رہا تھا مگر جب اس نے سونے چاندی کی بنی ہوئی سڑک پر ختم رکھا اور ارد گرد سونے چاندی کی دیواریں دیکھی اور پھر سلیمان علیہ السلام کی جاہ و عزت اور شان و شوکت کے نظارے دیکھے تو اس کا دل دھک دھک کرنے لگا اور شرم کے مارے پانی پانی ہو گیا اور سوچنے لگا کہ میں یہ بلقیس کا تحفہ کس منہ سے سلیمان کی خدمت میں پیش کروں گا۔
بہرحال جب وہ بارگاہ سلیمانی میں پہنچا تو حضرت نے فرمایا: کیا تم لوگ مال دنیا سے میری مدد کرنا چاہتے؟ ہو تو تم لوگ اہل مفاخرت ہو دنیا پر فخر کرتے ہو ایک دوسرے کے تم سے ہدیہ پر خوش ہوتے ہو مجھے نہ دنیا سے خوشی ہوتی ہے نہ اس کی حاجت ہے اللہ تعالی نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے اور اتنا کچھ دیا ہے کہ اوروں کو نہ دیا باوجود اس کے دین و نبوت سے مجھ کو مشرف فرمایا ہے لہذا اے بالقیس کے قاصد! پلٹ جاؤ اور یہ اپنا تحفہ لے جاؤ اپنے ساتھ ہی اور جا کر کہہ دو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر ہمارے حضور حاضر نہیں ہوتی تو ہم اس پر وہ لشکر لائیں گے کہ اس کے مقابلہ کی اسے طاقت نہ ہوگی اور ہم اسے ذلیل کر کے شہر سے نکال دیں گے۔
بلقیس کا قاصد یہ پیغام لے کر واپس پلٹا اور بلقیس سے سارا قصہ تفصیل سے کہا بلقیس نے غور سے سنا اور بولی: بے شک وہ نبی ہے اور اس سے کرنا ہمارے بس کا کام نہیں پھر اس نے اعیان سلطنت سے مشورہ طلب کرنے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں خود حاضر ہونے کا ارادہ کر لیا ہدہد نے یہ ساری رپورٹ حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچا دی اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھرے دربار میں یہ اعلان فرمایا۔
کون ہے جو بلقیس کے یہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت یہاں لے آئے؟
افریت نامی ایک جن اٹھا اور بولا: آپ کا اجلاس برخاست ہونے سے پہلے پہلے میں لے آؤں گا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: ہم اس سے بھی زیادہ جلدی منگوانا چاہتے ہیں۔
تو پھر ایک عالم کتاب اٹھا اور بولا: میں ایک پل مارنے سے بھی پہلے لے آؤں گا۔
یہ کہا اور پل کی پل میں وہ تخت لے بھی آیا اور سلیمان نے دیکھا تو تخت سامنے رکھا تھا پھر بلقیس بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور حضرت کی شان و شوکت اور صداقت و نبوت کا نظارہ کر کے مسلمان ہو گئی۔
(روح البیان)
سبق
حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار اور بلقیس کے تخت کے مقام کا درمیانی فاصلہ دو مہینے کی راہ کا تھا اور تول و عرض اس کا آپ پڑھ چکے کی 20 گز اونچا 40 گز چوڑا اور 80 گز لمبا تھا اتنی طویل مسافت اور اتنے وزن دار ہونے سے اسے محفوظ مقام میں ہونے کے باوجود سلیمان علیہ السلام کا ایک سپاہی اسے پل بھر میں لے آیا تو پھر جو سلیمان علیہ السلام کے بھی آقا و مولا حضور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے اولیاء امت ہیں وہ کیوں دور دراز کی مسافت سے کسی مظلوم کی کی حمایت کو نہیں پہنچ سکتے۔
وہ عالم کتاب وہ تخت لانے کے لیے بھرے دربار سے بلقیس کے محل میں گیا اور وہاں سے تخت اٹھا کر واپس آیا مگر اس عرصہ میں وہ حضرت سلیمان کے دربار سے غائب بھی نہیں ہوا اور مقام تخت تک بھی پہنچ گیا معلوم ہوا کہ اللہ والوں کی یہ طاقت ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں متعدد جگہ حاضر ہو سکتے ہیں اور یہ طاقت حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک سپاہی کی ہے پھر جو حضرت سلیمان کے بھی آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان کا ایک وقت میں متعدد جگہ تشریف فرما ہونا کیوں ممکن نہیں؟
حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس سپاہی نے دو مہینے کی راہ کو پل بھر میں طے کر لیا اور پل بھر میں چلا بھی گیا اور ا بھی گیا پھر حضور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا شب معراج پل بھر میں عرش پر تشریف لے جانا اور واپس تشریف لے آنا کیوں ممکن نہیں۔
تخت سلیمان علیہ السلام کو میں ایک لشکر عظیم کے ہوا اٹھا لیتی تھی یہ نبی کا تصرف و اختیار ہے اور جو یا وہ اپنی مثل بشر کہتے ہیں ان میں سے کوئی صاحب ذرا اپنی بیوی سمیت ہی کسی چھت سے ہوا میں چھلانگ لگا کر دکھائے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔
حضرت سلیمان علیہ السلام حرم شریف میں پہنچ کر ہر روز پانچ ہزار اونٹ پانچ ہزار گائے اور بیس ہزار بکریاں ذبح فرماتے رہے مگر ایک فرقہ آج کل ایسا بھی ہے جو ایام حج میں ایک بکری تک کی قربانی کو بھی فضول کہتا ہے اور مسلمانوں کو اس شرعی امر سے روکتا ہے۔
جن و انس وحش طیور خشکی اور تری کے حیوانات اور دیگر اللہ کی زبردست مخلوق بھی سلیمان علیہ السلام کے توبہ تھی اور آج جو لوگ انبیاء کو اپنی مثل بشر کہتے ہیں ان کے گھروں کی طرف نظر دوڑائیے تو ان کی بیوی بھی ان کے تابع نہیں۔