دکھی دلوں کو خوش کرنا تمام عبادات سے افضل ہے
اللہ عزوجل کا ایک نیک بندہ حج بیت اللہ کی سعادت کے لیے اس شان سے روانہ ہوا کہ ہر قدم پر دو رکعت نماز ادا کرتا تھا اس کے شوق کا یہ عالم تھا کہ راستے کی تکالیف سے اسے راحت ملتی اور راستے کے کانٹے بھی اسے پھول محسوس ہوتے تھے وہ نیک شخص اپنے اسی شوق اور جذب ہوا مستی کی کیفیت میں سفر کر رہا تھا کہ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید میں واحد شخص ہوں جو اس طرح سفر کر رہا ہوں اور ایسا سفر آج تک کسی نے نہ کیا ہوگا؟
اس نے ایک شخص کے دل میں یہ خیال شیطان کی جانب سے آیا تھا اگر وہ اس وقت سنبھل جاتا اور فورا استغفار کرتا تو ہلاک نہ ہوتا اسے یہ کہنا چاہیے تھا کہ مجھ پر اللہ عزوجل کا فضل ہے جو اس نے مجھے اس نعمت سے سرفراز کیا۔
اس شخص کے کانوں میں غیبی ندا آئی کہ اے نیک بندے بے شک تو نے میری عبادت کا صحیح حق ادا کیا لیکن تو یہ خیال ہرگز نہ کر کہ تو میری بارگاہ میں کوئی خاص تحفہ لے کر حاضر ہو رہا ہے بلکہ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ دکھی دلوں کو خوش کرنا ہزار رکعت نماز سے افضل ہے اور اگر کوئی دکھی دل تیری وجہ سے خوش ہو جاتا ہے تو یہ تیری اس تمام عبادت سے افضل ہے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ شکایت میں ایک نیک شخص کا قصہ بیان کرتے ہیں جس نے حج بیت اللہ کی سعادت اس شان سے حاصل کی کہ اس نے ہر قدم پر دو رکعت نماز ادا کی وہ شخص یہ سوچنے لگا کہ شاید میں واحد ایسا شخص ہوں جس نے اس شان سے اللہ کی سعادت حاصل کی ہے اس شخص کے دل میں یہ خیال شیطان کی جانب سے تھا اور بجائے وہ اس بات کا اظہار کرتا یہ سب اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے ہوا اس نے ایسی بات کہی۔
اسے غیبی ندا سنائی کی اگرچہ تیری عبادت بہترین ہے مگر دکھی دلوں کو خوش کرنا تمام عبادات سے افضل ہے بس یاد رکھو کہ تم پاک کتنے ہی متقی کیوں نہ ہو اگر تمہاری تمام عبادات کو ختم کرنے والا ہے اگر تمہیں کوئی پریشان حال ملے تو اس کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرو اور غم خوار کے غم گسار بنوں کہ اللہ عزوجل اس شخص سے خوش ہوتا ہے اور دکھی دلوں کو خوش کرتا ہے۔