دوست وہ ہے جو قید خانے میں کام آئے
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اپنے غریب دوست کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ وہ میرے پاس اپنی غربت کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا کہ میرے بچے زیادہ ہیں اور میری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اب مجھ میں فاقہ کی ہمت باقی نہیں رہی اور کئی مرتبہ یہ خیال کرتا ہوں کہ کسی دوسرے ملک چلا جاؤں اور پھر یہ خیال آتا ہے کہ جیسا بھی ممکن ہو یہیں رہوں اسی طرح میرے حالات لوگوں پر عیاں نہیں ہوں گے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو بھوکے سوتے ہیں اور کسی کو ان کی خبر نہیں ہوتی۔
اور بے شمار ایسے لوگ ہیں جو مرتے ہیں تو ان پر رونے والا کوئی نہیں ہوتا اکثر میں سوچتا ہوں کہ یہاں سے چلا گیا تو میرے بعد یہ لوگ مجھ پر طعنہ زنی کریں گے اور میرا مذاق اڑائیں گے کہ اپنی اولاد کے متعلق یہ کتنا بے مروت نکلا یہ کیسا بے غیرت اور یہ ہرگز نیک نہیں ہو سکتا کہ اپنی سہولت اور آرام کے لیے اپنے بیوی بچوں کو تنگدستی میں مبتلا کر گیا۔
اے شیخ! آپ جانتے ہیں کہ میں علم حساب کا ماہر ہوں اگر آپ سفارش کریں تو مجھے کوئی مناسب نوکری مل جائے میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر یاد رکھوں گا۔
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا! کہ بادشاہ کی نوکری کے دوزخ ہوتے ہیں اول رزق کی امید اور دم جان کا خطرہ اور عقلمندوں کی رائے کے مطابق رزق کی امید پر جان کو خطرے میں نہ ڈالو غریب کے گھر زمین اور باغ پر کوئی ٹیکس وصول کرنے نہیں آتا پس تکلیف پر راضی رہو یا پھر تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار رہو۔اس شخص نے کہا! کہ اے شیخ آپ نے میرے دکھ کا اندازہ نہیں کیا اور یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے کیا آپ نے سنا نہیں کی جو خیانت کرتا ہے اسی کا ہاتھ کانپتا ہے سچے اور کھرے انسان سے اللہ عزوجل راضی ہوتا ہے اور میں نے کبھی کسی سیدھے راستے پر چلنے والے کو بھٹکا ہوا نہیں دیکھا۔
،عقلمند کہتے ہیں کہ چار طرح کے لوگ چار طرح کے لوگوں کے دشمن ہوتے ہیں اول ڈاکو بادشاہ کے، دوم چور چوکیدار کے، سوم بدکار چغل خور کے اور رنڈی کوطوال کی پس جس کا اعمال نامہ صحیح ہے اسے حساب کتاب سے کوئی ڈر نہیں ہے اگر تم اپنے حساب کے دن یعنی روز محشر اپنے دشمنوں کو تنگ کرنا چاہتا ہے تو اپنے کام کو زیادہ مت پھیلا اور پھر تجھے کچھ خوف نہ ہوگا کیونکہ ناپاک کپڑے کو ہی دھوبی پٹرے پر کوٹتا ہے۔
میں نے اس سے ایک لومڑی کا قصہ اس کے حال کے مطابق بیان کیا کہ ایک لومڑی کو بھاگتے دیکھ کر لوگوں نے پوچھا کہ تجھے کیا مصیبت آن پڑی کہ تو اتنا دوڑ رہی ہے اس نے کہا! میں نے سنا ہے کہ شیر کو بیگار میں پکڑ رہے ہیں لوگوں نے کہا! کہ اے بیوقوف تیری شیر سے کیا نسبت اس نے کہا کہ تم چپ رہو اگر حاسدوں نے دشمنی میں یہ کہہ دیا کہ یہ شیر کا بچہ ہے تو پھر میرا کیا بنے گا اور مجھے کون چھڑائے گا جب تک عراق سے تریاق لایا جائے گا سانپ کا ڈسا ہوا مر جائے گا۔
اے دوست بے شک تو دیانت داری کے ساتھ کام کرے گا مگر ان حاسدوں کا کیا جو حسد میں مبتلا ہوں گے اور بادشاہ کے سامنے تیری جھوٹی شکایت کریں گے اور پھر جھوٹ بول کر تجھے غلط ثابت کریں گے تیرے حق میں بولنے والا کوئی نہ ہوگا لہذا تیرے لیے بہتر یہی ہے کہ تو روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر اور بادشاہ کی ملازمت کا خیال دل سے نکال دے دریا میں اگرچہ بے شمار فائدے ہیں مگر سلامتی کی فکر ہے تو کنارے پر رہنا سیکھ۔
میرے دوست نے جب میری باتیں سنی تو مجھ سے ناراض ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ کوئی عقلمندی کی باتیں نہیں جو تم نے کہیں۔
میں نے کہا! کہ عقلمندوں کی بات درست نکلی اور دوست وہ ہے جو قید خانے میں کام آئے جب کی کھانے پر تو دشمن بھی دوست بن جاتا ہے جو عیش کے دنوں میں دوستی کی ڈینگے مارتا ہے اس کو کبھی دوست نہ جانو اور تمہارا صحیح دوست وہی ہے جو تمہیں پریشان دیکھے تو تمہاری مدد کرے۔میں نے دیکھا کہ میری ان باتوں کو سن کر میرا وہ دوست غصے سے بھڑکتا جا رہا ہے اور میری باتوں کو خودغرضی جان رہا ہے چنانچہ میں نے اس کو لے کر کچہری چلا گیا اور وہاں اپنے ایک واقف کار کے ذریعے اسے ایک معمولی نوکری پر لگوا دیا میرا وہ دوست کچھ ہی عرصے میں اپنی محنت اور قابلیت کی بدولت ترقی کرتا ہوا ایک بڑا افسر بن گیا۔
اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ بادشاہ کے خاص مقرب بندوں میں شامل ہونے لگا میں نے اس سے کہا! کہ تو ناکامی کے متعلق نہ سوچ اس لیے کہ زندگی کے چشمے کا پانی اندھیرے میں ہے اور مصیبت میں مبتلا شخص کبھی چیخیں نہ چلائے کیونکہ اللہ عزوجل کا کرم پوشیدہ ہے اور حالات کی سنگینی کی وجہ سے خود میں بگاڑ پیدا نہ کرو کیونکہ صبر اگرچہ کڑوا ہے مگر اس کا پھل میٹھا اور لذیذ ہے۔
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ پھر کچھ عرصہ بعد میں کچھ دوستوں کے ہمراہ حج بیت اللہ کے لیے چلا گیا جب میں حج کی سعادت کے بعد واپس لوٹا تو میرا وہی دوست پھر پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ میرے استقبال کے لیے موجود تھا میں نے اس کی یہ حالت دیکھی تو حیرانگی کا اظہار کیا پوچھا کہ تیرے ساتھ یہ کیا ہوا۔اس نے کہا کہ آپ کا کہا سچ ثابت ہوا اور میرے حسدوں نے مجھ پر خیانت کا الزام لگایا بادشاہ نے صحیح معنوں میں تفشیش نہیں کروائی اور میرے تمام رفقاء اور درینہ ساتھی سب سچ بولنے سے ڈرتے تھے لہذا خاموش رہے اور تمام پرانے تعلقات کو نظر انداز کر دیا۔
کیا تم دیکھتے نہیں کہ بڑے آدمی کی تعریف کے لیے لوگ سینے پر ہاتھ باندھے ہیں اور اگر زمانہ اس بڑے آدمی کو گرا دے تو یہی لوگ اسے پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں الغرض مجھے مختلف سزاؤں میں مبتلا کیا گیا اور پھر جب اس ہفتہ حجاج کی امد کی اطلاع ملی تو مجھے قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی میں اپنی پہلی حالت پر واپس لوٹ آیا
حضرت شیخ سعدی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ تو نے میرا مشورہ نہ ماننا اور کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ بادشاہوں کی نوکری دریا میں رہنے کے مترادف ہے جس میں بڑا خطرہ ہے اور اگر تو اس میں کامیاب رہا تو مفید خزانہ تیرے ہاتھ لگے گا اور اگر ناکام رہا تو ڈوب جائے گا اگر برے کان میں نصیحت کی بات نہیں پہنچی تو کیا تو جانتا نہیں کہ برے پاؤں میں بیڑیاں پڑ سکتی ہیں اگر تجھ میں دوسرے مرتبہ ڈنگ کھانے کی سکت نہیں تو بچھو کے بل میں انگلی کیوں ڈالتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دوست وہ ہے جو قید خانے میں کام آئے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں اپنے دوست کو کی گئی نصیحتوں کو بیان کرتے ہیں جب اس نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی کہ بادشاہ کی ملازمت کے لیے میری سفارش کریں آپ نے بادشاہ کی ملازمت کے نقصان اسے بتائے مگر وہ بضد رہا آپ نے اس کی سفارش کر دی اور پھر بادشاہ کے مصاحبوں کے حسد کی وجہ سے اسے اذیتوں سے گزرنا پڑا۔
اور وہ اپنی پہلی حالت کو دوبارہ لوٹ آیا آپ فرماتے ہیں کہ نصیحت اگر نفع دے تو ضرور کرو اور اگر تم کسی دانہ شخص سے نصیحت مانگو تو پھر اس کی نصیحت پر عمل بھی کرو دوست وہ ہے جو قید خانے میں کام آئے نہ کی وہ جب تم اسودہ حال ہو تو تمہارا دل بھرتا پھرے۔