بچھو کی پیدائش
داناؤں کا بیان ہے کہ بچھو کی پیدائش دوسرے جانداروں سے بالکل مختلف ہوتی ہے اور جب اس کی پیدائش کا وقت ہوتا ہے تو اپنی ماں کے پیٹ کو کھانا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ ماں کا پیٹ پھاڑ کر باہر نکل آتا ہے اور جنگل کی جانب دوڑ جاتا ہے۔
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس نقطہ کو ایک بزرگ کے آگے بیان کیا تو انہوں نے فرمایا: کہ میں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے اور واقعی ایسا ہی ہوتا ہے میں نے عرض کیا کہ وضاحت کریں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ بچپن میں وہ اپنی ماں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے اسی لیے جب بڑا ہوتا ہے تو ہر بندے سے اپنی عزت کرواتا ہے اور ہر کوئی اسے مارنے پر تل جاتا ہے جیسے وہ بڑا مقبول ہو۔
ایک باپ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ بیٹا جو اپنوں سے وفا نہیں کرتا وہ داناؤں کی نگاہ میں ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے اور ہر کوئی اسے دور بھاگتا ہے وہ جیسا سلوک کرتا ہے ویسا ہی کروا لیتا ہے۔
بچھو سے لوگوں نے پوچھا: کہ تو سردی میں کیوں باہر نہیں نکلتا؟ اس نے کہا: کہ گرمیوں میں میری کون سی عزت کی جاتی ہے جو میں سردیوں میں باہر نکلوں یعنی گرمی ہو یا سردی مجھے جوتے ہی مارے جاتے ہیں۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اسی ایت میں بچھو کی پیدائش کے متعلق بیان کر رہے ہیں کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ کو کھا کر باہر نکلتا ہے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس نقطے پر کسی بزرگ سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ پیدائش کے وقت وہ اپنی ماں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے۔
اور پھر جب بڑا ہوتا ہے تو لوگوں سے اپنا سلوک کروا لیتا ہے یعنی ہر کوئی اسے مارتا ہے پس یہ قانون قدرت ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے اور جو دوسروں کی عزت نہیں کرتا وہ کسی سے اپنی عزت کی توقع کیوں رکھتا ہے جو اپنوں کا نہیں ہو سکتا اس کا کوئی نہیں ہو سکتا۔