بے جا مداخلت شریفوں کا شیوہ نہیں
ایک بزرگ دوران سفر ہندوستان کہ کسی علاقے سے گزرے انہوں نے ایک قوی ہیکل سیاہ فام شخص کو دیکھا جس نے ایک نازک اندام اور خوبرو عورت کو پکڑ رکھا تھا ان بزرگ نے خیال کیا کہ شاید یہ شخص طاقتور ہے اور وہ عورت کمزور ہے اس لیے اس کے شکنجے میں پھنس گئی ہے وہ بزرگ اس عورت کی مدد کے خیال سے اگے بڑھے اور اس سیاہ فام حبشی کو ڈرا دھمکا کر اور غیرت د کر اس بات پر امادہ کر لیا کہ وہ ایک بے بس عورت کو تنگ کر رہا ہے اس کا انجام اچھا نہ ہوگا۔
ان بزرگ کے کہنے پر وہ شخص اس عورت کو چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گیا ان بزرگ نے اس سیاہ فام حبشی کے بھاگنے کو اپنی کامیابی تصور کیا اور خیال کیا کیے نازک اندام عورت اب ان کا شکریہ ادا کرے گی لیکن معاملہ ان کے الٹ ہوا اور وہ عورت ان بزرگ پر برس پڑی اور کہنے لگی! کہ تم نے میرے محبوب کو مجھ سے جدا کر دیا۔یہ کہنے کے بعد وہ عورت زور زور سے چلانا شروع ہو گئی کہ یہ بوڑھا شخص میری عزت برباد کرنا چاہتا ہے جب معاملہ نے سنگینی اختیار کی تو ان بزرگ نے وہاں سے بھاگ نکلنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بزرگ کا قصہ بیان کرتے ہیں جو دوران سفر ایک جگہ سے گزرے تو انہوں نے ایک سیاہ فام حبشی کو ایک نازک عورت کو پکڑے دیکھ کر اس نازک عورت کو اس کے شکنجے سے بچا لیا۔
اس عورت نے ان بزرگ سے کہا! کہ تم نے میرے محبوب کو مجھ سے جدا کر دیا پھر اس نے لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا کہ اس بزرگ نے میری عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے ان بزرگ نے وہاں سے بھاگنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی۔
بس یاد رکھنا چاہیے کہ بھیجا مداخلت شریفوں کا شیوہ نہیں جب تک تم پر حقیقت واضح نہ ہو کسی کے کام میں مداخلت نہ کرو بغیر سوچے سمجھے جب اور حقیقت سے واقف نہ ہو انہیں کی بنا پر جب تم کسی کے کام میں مداخلت کرو گے تو یقینا وہ کام تمہارے گلے پڑ جائے گا اور تمہیں ذلت و رسوا ہو گے پہلے معاملے کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرو اور پھر اس کی مناسبت سے فیصلہ کرو کہ اس معاملے میں تمہارا دخل دینا درست ہے یا نہیں۔