بارگاہ الہی کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں
ایک درویش ساری رات عبادت میں مصروف رہا اور صبح ہوئی تو اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اپنی مناجات رب کے آگے بیان کرنے لگا؟
غیب سے آواز آئی کہ تیری دعا قبول نہ ہوگی اس لیے تو اپنا وقت برباد نہ کر اگلی رات وہ درویش پھر ساری رات عبادت میں مشغول رہا اور صبح کے وقت پہلے دن کی طرح دعاؤں میں مشغول ہو گیا۔
اس درویش کے ایک مرید کو یہ بات معلوم ہو گئی کہ حاتف غیب نے میرے مرشد کی دعاؤں کو رد کیا جانے کی نوید سنائی ہے وہ انہیں دعا کرتے دیکھ کر بولا کہ جب آپ کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ آپ کی دعا قبول نہ ہوگی تو پھر یہ مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں؟
ان درویش نے جب اپنے اس مرید کی بات سنی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور وہ گلو گیر آواز میں بولے کہ تو ٹھیک کہتا ہے کہ مجھے دودھکار دیا گیا ہے لیکن میں کیا کروں کہ بارگاہ الہی کے سوا میرا اور کوئی ٹھکانہ نہیں اور اگر اللہ نے مجھ سے اپنی نظریں پھیر لیں تو تو یہ خیال نہ کر کہ میں کسی اور در پر چلا جاؤں گا میرا تو اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی در اس کے در کے سوا ہے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک درویش کا قصہ بیان کرتے ہیں جو بارگاہ الہی میں دعا مانگ رہا تھا اور ہاتف غیب سے ندا آئی کی تیری دعا قبول نہ ہوگی اس درویش کے مرید نے عرض کی جب آپ کی دعا قبول نہ ہوگی تو پھر دعا کیوں مانگتے ہیں ان درویش نے کہا کہ بارگاہ الہی کے سوا میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔
بس انسان کو چاہیے کہ وہ کسی بھی حالت میں اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور جان رکھے کہ مالک حقیقی اسی کی ذات ہے اور اس کے در کے سوا کوئی دوسرا اور در نہیں ہے اللہ عزوجل دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے اور اگر تمہاری کوئی دعا قبول نہیں ہوتی تو یہ گمان نہ کرو کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی بلکہ یہ جان رکھو کہ اس میں تمہارے لیے کوئی بھلائی کا پہلو نہیں تھا اور اس لیے اللہ عزوجل نے اسے قبول نہیں فرمایا نیز مایوسی گناہ ہے اور اللہ عزوجل کی رحمت سے نا امید ہونا کفر کا شیوہ ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ بارگاہ الہی کے سوا کوئی اور ٹھکانہ نہیں.