باختر حاکم کے بیٹے
باختر کے حاکم کے دو بیٹے تھے اور دونوں ہی فنون سپہ گیری میں ماہر شہ زور اور حوصلہ مند تھے حاکم نے محسوس کیا کہ میرے بعد ان دونوں کی کوشش ہوگی کہ وہ حکومت پر قابض ہوں اور یوں دونوں ایک دوسرے کے قتل کے در پہ ہوں گے۔
اس نے جب تمام پہلوؤں پر غور کیا تو اس نے ارادہ کیا کہ ملک کو دو حصوں میں برابر تقسیم کر کے ان دونوں کو حکومت سونپ دی جائے اور انہیں نصیحت کی جائے کہ یہ اپس میں متحد رہیں اور بوقت ضرورت ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں کہ اس میں انہی دونوں کی بھلائی ہے۔۔
باختر کے حاکم کے دونوں بیٹے اپنی عادتوں میں ایک دوسرے کے مختلف تھے ایک بیٹا خدا ترس اور خوش اخلاق تھا تو دوسرا بیٹا سخت گیر اور لالچی تھا باپ کی زندگی میں دونوں بھائیوں کے درمیان بظاہر کوئی اختلاف پیدا نہ ہوا کیونکہ دونوں باپ کے سایہ شفقت میں تھے مگر جب باپ کی وفات ہوئی تو دونوں کا مزاج کھل کر سامنے آگیا۔
پہلا بیٹا جو خدا ترس اور خوش اخلاق تھا اس کو اپنے عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ملک میں باغوں کا جال بچھ گیا اور کھیت غلے کے انبار لگانا شروع ہو گئے عوام اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے اور اس کی لمبی عمر کے لیے دعائیں مانگا کرتے تھے۔دوسرا بیٹا جو کہ لالچی اور سخت طبیعت کا مالک تھا اسے ہر وقت یہی فکر لاحق رہتی تھی کہ کس طرح وہ اپنا خزانہ بھر لے اس نے اپنی لالچی طبیعت کی وجہ سے عوام الناس کا جینا دوبھر کر دیا اور لوگ اپنے گھر اور زمینیں چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لیتے گئے جب ہمسایہ ملک کے بادشاہ کو اس ملک کی زبوں حالی کا علم ہوا تو اس نے اس پر چڑھائی کر دی اور اس ملک پر قبضہ کر لیا۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں باخطر حاکم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کر رہے ہیں جو طبیعت میں ایک دوسرے کی ضد تھے حاکم نے مرتے وقت ملک میں دونوں میں تقسیم کر دیا جو بیٹا نیک فطرت تھا اس کی رعایہ اس سے خوش تھی اور جو بیٹا بد خصلت تھا اس کی رعایہ اس سے نالا تھی
بد خصلت کی بری عادتوں اور حکومتی امور میں عدم و دلچسپی کو ہمسایہ ملک کے بادشاہ نے محسوس کر لیا اور اس نے اس کے ملک پر قبضہ کر لیا بس یاد رکھنا چاہیے کہ نیکی کا اجر نیکی اور بروں کا اجر برا ہے جو بو گے وہی کاٹو گے ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق آخرت میں پھل ملے گا جن کے اعمال نیک ہوں گے وہ یقینا جنت کے مستحق ہوں گے اور جن کے اعمال برے ہوں گے وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے