بیت اللہ کی کنجی
ہجرت سے پہلے بیت اللہ کی کنجی قریش مکہ کے قبضہ میں تھی اور یہ کنجی عثمان بن طلحہ کے پاس رہا کرتی تھی یہ لوگ بیت اللہ کو پیر اور جمعرات کے روز کھولا کرتے تھے ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور عثمان بن طلحہ سے دروازہ کھولنے کو کہا تو عثمان نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔
حضور نے فرمایا: اے عثمان! آج تو تو یہ دروازہ کھولنے سے انکار کر رہا ہے اور ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ بیت اللہ کی یہ کنجی میرے قبضہ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا یہ کنجی دوں گا عثمان نے کہا: تو کیا اس دن قوم قریش ہلاک ہو چکی ہو گی؟ دیکھا جائے گا۔
پھر ہجرت کے بعد جب مکہ فتح ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے قدسی لشکر سمیت مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو سب سے پہلے کعبہ شریف میں تشریف لائے اور اسی کلید بردار عثمان سے کہا: لاؤ وہ کنجی میرے حوالے کر دو نہ چار عثمان کو وہ کنجی دینی پڑی حضور نے وہ کنجی لے کر عثمان کو مخاطب فرما کر فرمایا: عثمان لو کلید بردار میں بھی تجھ ہی کو مقرر کرتا ہوں تم سے کوئی ظالم ہی ایک کنجی لے گا۔
عثمان نے دوبارہ کنجیلی تو حضور نے فرمایا: عثمان وہ دن یاد ہے جب میں نے تم سے کنجی طلب کی تھی اور تم نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا تھا اور میں نے کہا تھا ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ایک کنجی میرے قبضے میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا دوں گا عثمان نے کہا ہاں! مجھے یاد ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔
(حجۃ اللہ علی العالمین)
سبق
ہمارے حضور اگلی پچھلی سب باتوں کے عالم ہیں اور قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے سب آپ پر روشن ہے خدا نے آپ کو علم غیب عطا فرمایا ہے اور آپ دانہ غیوب و عالم ماکان و مایکن ہیں پھر اگر کوئی شخص یوں کہے کہ حضور کو کل کی بات کا علم نہ تھا تو وہ کس قدر جاہل ہے۔