awliya allah logon ke dilon ka haal jaan lete hain

اولیاء اللہ لوگوں کے دلوں کا حال جان لیتے ہیں

حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ ایک دریا کے کنارے بیٹھے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ پہلے بادشاہ تھے اور پھر درویشی اختیار کر لی آپ رحمہ اللہ علیہ کے امراع میں سے ایک نے پہچان لیا اور آپ کی یہ حالت دیکھ کر حیران ہو گیا۔

اولیاء اللہ لوگوں کے دلوں کا حال جان لیتے ہیں اسی لیے اولیاء اللہ کے پاس جا کر برے وساوس کو دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے لوگ احمق ہیں کہ دنیاوی بادشاہوں کے پاس تو اخلاص سے جاتے ہیں اور اولیاء اللہ کی مخالف میں فاسد خیالات لے کر جاتے ہیں اگر تم کور باطن ہو تو بزرگوں کے سامنے زیادہ ذلیل کر جاؤ۔

حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ اس کے وسوسے کو تاڑ گئے اور آپ نے اپنی سوئی جس سے گودڑی سی رہے تھے وہ دریا میں پھینک دی پھر دریا سے سوئی واپس مانگی تو مچھلیاں سونے کی لاکھوں سوئیاں لے کر سطح آپ پر نمودار ہوئی آپ نے فرمایا: کہ مجھے تو اپنی سوئی چاہیے پھر ایک مچھلی ان کی سوئی لے کر آئی۔اولیاء اللہ لوگوں کے دلوں کا حال جان لیتے ہیںحضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے اس شخص سے فرمایا: کہ دنیا کی حکومت کا طلبگار نہ ہو بلکہ روحانیت کو طلب کر عالم غیب ایک باغ کی مانند ہے جس کا تھوڑا سا حصہ اس دنیا میں موجود ہے عالم غیب ایک سمغر ہے اور یہ دنیا اس کا ایک ادنی سا چھلکا ہے اگر عالم غیب کے باغ میں قدم نہیں پہنچتا تو اس کی خوشبو حاصل کرنے کی کوشش کرو نفسانی خواہشات دفع کرو عاشقوں کی صحبت میں رہو اور جب عالم غیب کی خوشبو کو پاؤ گے تو روح عالم غیب کی جانب کھینچے گی اور باآخر سینے میں تجلیات الہی کا ظہور ہوگا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض میں وہی عالم غیب کی خوشبو تھی جسے حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں روشن ہو گئیں اور ان کی بینائی واپس سے لوٹ آئی یہی عالم غیب کی خوشبو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں محسوس کی اور فرمایا کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

لطائف کستہ قلب، روح ،نفس، سر، خفی، اخفی ایک دوسرے سے ملے ہوئے اگر مصفی ہو جائیں تو دوسرے بھی غذا حاصل کرتے ہیں قلب کو ذکر کی غذا ملتی ہے اور تو دوسرے لطائف بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں آنکھ متاثر ہوتی ہے تو اس سے دل بھی اثر پکڑتا ہے پھر دل میں کیفیت اخلاص صدقہ اور عشق پیدا ہوتا ہے۔

عشق سے اخلاص پیدا ہو تو دیگر حواس بھی متاثر ہوتے ہیں اور ان میں وصل محبوب کا ذوق پیدا ہوتا ہے اور اس طرح رحمت خداوندی سے غیب عالم کا ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے ہر لطیفہ دوسرے لطائف کے لیے جنت الفردوس کے عرفان کے پیغام بری کا کام دینے لگتا ہے اس طرح لطائف کے باہمی تعلق میں کسی قسم کے تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی جب مرید کے حواس شیخ کامل کے حواس کے تابع ہو گئے تو آسمان و زمین تک شیخ کامل کے تابع ہو جائیں گے۔

چھلکا بھی اسی کی ملکیت ہوتا ہے جو مغز کا مالک ہوتا ہے جسم اور روح کی نسبت ویسی ہی ہے جیسے کہ آستین اور ہاتھ کی عقل اور روح کے مخفی ہونے میں فرق ہے اور عقل روح کے اعتبار سے زیادہ مخفی ہے روح دوسری روح کو جلدی پہچان جاتی ہے جبکہ عقل دیر سے پہچانتی ہو۔

ہر انسان نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقل کو جان لیا اور آپ کو عقلمند کہا! لیکن بے شمار لوگ آپ کے وحی کی استطاعت کو نہیں جان سکے اور وہی کی استعداد کی بھی کچھ علامات ہیں اور چونکہ وہ نادر ہوتی ہے اسی لیے عقل ان کو نہیں پہچان پاتی اور ان علاماتوں کو جنون کا اثر سمجھتی ہے اور حیران ہو جاتی ہے۔

حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے کاموں کو مناسب نہ جانا اور ان پر اعتراض کیا اسرار غیبی کو سمجھنے میں حضرت موسی علیہ السلام جیسے عظیم پیغمبر کی عقل ناکام ہو گئی تو ہم جیسوں کو اس کا ادراک کیسے ہو سکتا ہے۔

تحقیقی عالم والا خاموشی سے اللہ عزوجل کے ساتھ خرید و فروخت میں مصروف رہتا ہے اللہ عزوجل نے مومنوں سے ان کے جان اور مال کو جنت کے عوض خرید لیا ہے ہر عالم کا خریدار اس کے لیے مناسب ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کے علوم کے خریدار فرشتے تھے نہ کہ دیو پری اور جن لوگوں کا تعلق سفلی علوم سے ہے ان کا تعلق چوہے کے علم کے مانند صرف خوراک کی تلاش ہے لہذا ان کو اتنی ہی عقل عطا کی گئی ہے دنیا کو اگر زمین کی ضرورت نہ ہوتی تو زمین کبھی نہ بنتی اگر دنیا کو آسمانوں کی ضرورت نہ ہوتی تو ان کو بھی ہرگز پیدا نہیں کیا جاتا سورج چاند ستارے سب ضرورت کے تحت ہی پیدا کیے گئے اشیاء کے وجودان کی ضرورت کی شدت کی وجہ سے ہے پس تم اپنی احتجاج اور ضرورت کو بڑھاؤ تاکہ رحمت الہی جوش میں آئے۔

دنیا کا یہی دستور ہے کہ جب تک فقیر اپنی مجبوری اور ضرورت کا اظہار نہیں کرتا اس کو کچھ عطا نہیں کرتا عالم نہ سود میں پھنسے ہوئے اگر ضرورت محسوس کریں تو اللہ عزوجل ان کو نور بصیرت عطا فرما دیتا ہے جب ان کو نور بصیرت عطا ہو جاتا ہے تو ان کی پرواز عالم لہوت کی جانب شروع ہو جاتی ہے پھر ان پر اصرار الہی کھلنا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ بلبل کے مانند نغمہ سرائی کرنے لگتے ہیں۔

جسم اور روح کی نسبت اگر مفہوم سے ہوتی تو صرف اس قدر جیسا کی پانی کی نہر یا پرندے کے گھونسلے سے ان کا تعلق حقیقت میں غیر معلوم ہے روح کی اس قوت فکریہ میں ہمیشہ اچھے اور برے خیالات آتے جاتے ہیں جس طرح پانی بظاہر رکا ہوا نظر اتا ہے لیکن حقیقت میں یہ رواں ہے اس طرح روح ملائے اعلی کی جانب رواں ہے لیکن ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔اولیاء اللہ لوگوں کے دلوں کا حال جان لیتے ہیںسطح اب کی روحانی خش ہوا خاشاک کے گزرنے سے نظر آتی ہے اسی طرح روح کی قوت فکریہ کی سطح پر جو چھلکے ہیں وہ غیبی پھلوں کے چھلکے ہیں ان پھلوں کا مغز غیب میں تلاش کرو لا محالہ اس کا کوئی منبع ہے عام عارفوں کی ارواح کی روانی تیز ہے اسی لیے اس پر غموا غصہ کی خاص ہوا خاشاک زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرتے۔

جب اس شخص نے مچھلیوں کو حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کے تابہ دیکھا تو اس پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی اور اس کو اپنی لاعلمی پر افسوس ہونے لگا پہلے اس کے دل میں وسوسہ آیا کی فکر اختیار کرنے میں حیرانگی کا اظہار کرنے لگا پھر جب اس پر اصرار کا دروازہ کھل گیا اور وہ ان کے عشق کا دیوانہ ہو گیا۔

اگر مرید فیض حاصل نہ کر سکے تو اس میں شیخ کامل کا کچھ نقصان نہیں شیخ کامل تو ازلی دریا ہوتا ہے کوئی پیاسے رہے تو اس میں کوئی کمی نہیں اتی بد ایک آگ کی صورت اور شیخ کامل ایک آب کوثر ہے پانی آگ کو ختم کر دیتا ہے اور آگ ہرگز پانی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی شیخ کامل میں عیوب ڈھونڈنے والا درحقیقت جنت میں کانٹے تلاش کرتا ہے حالانکہ کانٹا تو وہ خود ہے شیخ کامل میں عیب تلاش کرنے والا خود عیب دار ہے جس ہنر کو شیخ کامل نہ سمجھیں وہ ہنر نہیں ہے اور جس یقین کو شیخ کامل یقین نہ سمجھیں وہ یقین نہیں ہے۔

شیخ کامل قبلہ کی مانند ہوتا ہے اور اس کی طرف دور سے بھی رخ کرنے سے فیض حاصل ہوتا ہے گدھا دلدل میں پھنسا ہوا ہو تو نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ دنیا بھی دلدل ہے اس سے نکلنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اگر کوئی عامیالی سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتا تو وہ گدھے سے بھی بدتر ہے۔

وجہ بیان

مولانا رومی رحمہ اللہ علیہ اس حکایت میں حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ علیہ کی کرامت کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ مرشد کامل سے فیض کے حصول کے لیے لازم ہے کہ انسان پہلے اپنے گزشتہ گناہوں پر نادم ہو اور اپنی بد اعمالیوں سے چھٹکارا پائے جو شخص اپنی بد عامالیوں سے چھٹکارا نہیں پاتا اس کی حالت اس گدھے سے بھی بدتر ہے جو دلدل میں پھنسا ہوا اور اسے نکلنے کی کوشش کرتا ہو۔

پیر کامل کی شخصیت مانند قبلہ ہے اور اس سے دور رہ کر بھی اس کی جانب رخ کرنے سے فیض حاصل کیا جا سکتا ہے جو شخص پیر کامل میں عیوب تلاش کرتا ہے درحقیقت و جنت میں کانٹے تلاش کرتا ہے پس اگر تم کسی پیر کامل کو پاؤ تو اس کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ کہ پیر کامل درحقیقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست فیض یافتہ ہے اور وہ تمہیں بھی ان کی بارگاہ میں مقبول ہوا محبوب بنا دے گا۔

پہلوان کی بے بسی

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top