عارف باللہ درحقیقت صحیح پہچان کرانے والا ہوتا ہے

عارف باللہ درحقیقت صحیح پہچان کرانے والا ہوتا ہے

ایک بادشاہ نے کرم کر کے ایک غلام کو اپنے تمام غلاموں میں سے پسند کر لیا اور اس کی تنخواہ چالیس سرداروں کے برابر کر دی بادشاہ کے کسی بھی وزیر نے اس کے دسویں حصہ کے برابر مرتبہ نہ دیکھا تھا بس یوں سمجھ لو کہ قسمت اقبال کی وجہ سے وہ ایاز تھا اور بادشاہ محمود تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جسمانی وجود میں آنے سے پہلے بھی دونوں ایک ہی تھے اور ایاز کی روح حقیقت میں محمود کی روح سے جڑی ہوئی تھی حقیقت میں معاملہ بھی وہی ہے جو جسم کے ظہور میں آنے سے پہلے ہوا پس تم بھی دنیاوی تعلقات چھوڑ دو جو کہ اس فانی دنیا میں پیدا ہوئے اور عارف باللہ ہی درحقیقت صحیح پہچان کرانے والا ہوتا ہے۔

عارف باللہ کی آنکھ بھینگی اور دو دکھانے والی نہیں ہوتی بلکہ اس کی نظریں اس دنیا میں انے سے پہلے والی کھیتیوں پر ہوتی ہیں عالم ارواح میں جو گیہوں یا جو انہوں نے بویا ہے اس کی نظر روز شب ان پر لگی رہتی ہے رات جس سے حاملہ بنی ہے اس مقدر کے سوا اس نے نہیں جنا اسی لیے عطا کردہ صلاحیتوں کے علاوہ سب تدبیریں بیکار ہیں۔

ان عارضی تدبیروں سے اس شخص کا دل کب خوش ہو سکتا ہے جو اللہ عزوجل کی تدبیر کو خود پر مسلط دیکھتا ہے اور حیلہ گر کبھی اس جال میں ہے کبھی ایک اور جال بچھاتا ہے تمہاری جان کی قسم وہ نہ اس کوشش سے جال سے نکلتا ہے نہ ہی اس کو کوشش سے اگر سینکڑوں گھاسیں بھی اگیں یا یہ شخص اگانے کی کوشش کرے تب بھی انجام کار اللہ کا بویا ہوا اگے گا؟

تم نے تقدیر کی پرانی کھیتی بہر جان پر تدبیر کی نئی کھیتی دنیائے ہست بودی یہ تدبیر کی کھیتی فنا ہو جائے گی اور تقدیر کی کھیتی کبھی فنا نہ ہوگی تقدیر والا بیج مکمل اور منتخب الہی ہے اور تدبیر والا بیج خراب اور سڑا ہوا ہے تم اپنی تدبیر کو محبوب حقیقی کی مرضی کے آگے ڈال دو اگرچہ تمہاری تدبیر بھی اس کی وجہ سے ہے اسی لیے اہم کام وہی ہے جو خدا نے مقدر کر دیا اور بالاخر وہی ہوگا جو پہلے بویا ہے اسی لیے اے دوستی کا حق نبھانے والے جب تم دوستی کے پابند ہو گے تو جو بھی اعمال کا بیج بو گے وہ اپنے دوست کی خاطر ہی بو چور نفس اور اس کے کاموں میں نہ لگو۔

خوب جان لو کہ جو اللہ عزوجل کا کام نہیں ہے وہ نہایت مشکل اور دشوار ہے اپنے اپ کو اس وقت سے پہلے بچا رکھو بس جب قیامت کا دن ظاہر ہوگا اور مالک حقیقی کے سامنے دنیا کی زندگی کی رات کا چور رسوا ہوگا یہ سمجھ لو کہ حیلہ و تدبیر سے چرایا ہوا مال اس دن چورکی گردن پر ہوگا۔عارف باللہ درحقیقت صحیح پہچان کرانے والا ہوتا ہےدنیاوی زندگی میں لاکھوں عقل مل کر کوشش کرتی ہیں تاکہ اس کے مقدر کردہ تقدیر کے جال کے سوا کوئی اپنی تدبیر کا جال بچھائیں ایسا کرنے والے اپنی تقدیر کے جال کو اور اپنے اوپر سخت پاتے ہیں کیونکہ ایک دن کا اندھی کے مقابلے میں کیا طاقت رکھتا ہے۔

اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں تو جا کر قرآن مجید میں دیکھ لو جہاں اللہ عزوجل فرما رہا ہے کہ اور اللہ سب سے بہترین داؤ کرنے والا ہے پس اگر تم کہو کہ اس عالم تدبیر کا کیا فائدہ ہے تو پھر اے سرکش خود ہی دیکھ لے کہ اس سوال سے تیرا کیا فائدہ ہے۔

اگر تیرے سوال میں ہی کوئی فائدہ نہیں ہے تو ایسے بے کار سوال کا کیوں سنوں اور اگر تیرے سوال کار آمد ہیں تو غور کر اور خود دیکھ لے کی عالم تدبیر بے فائدہ نہیں ہو سکتا مومن کے لیے شہادت ایک زندگی ہے اور منافق کے لیے موت ایک تباہی ہے اب تم خود ہی بتاؤ کہ دنیا میں کون سی نعمت ہے جس سے کچھ لوگ محروم نہیں ہیں۔

وجہ بیان

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں سلطان محمود غزنوی کے اپنے غلام ایاز پر کی جانے والی نوازشوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عارف باللہ درحقیقت صحیح پہچان کرانے والا ہوتا ہے تقدیر کے سامنے کسی کی نہیں چلتی

مومن موت کو اپنے لیے انعام سمجھتا ہے اور منافق کی موت اس کے لیے باعث عذاب ہے اللہ عزوجل کی حکمت کہ آگے سب حکمتیں ہیچ ہیں اور جب اس کا فیصلہ آتا ہے تو پھر کوئی کارگری کام نہیں اتی یہ دنیا اعمال کی کھیتی ہے پس جیسے اعمال بو گے اخرت میں ویسا ہی پھل پاؤ گے۔

عقل مند صاحب امکان ہوتا تو مشائخ کی مسند پر بیٹھتا

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔