arif aur zahid ki saerali allah

عارف اور زاہد کی سیرالی اللہ

انسان کو ہمیشہ وہ بات کرنی چاہیے جس کی تائید اس کا عمل کر سکے کفار زبان سے تو اللہ عزوجل کے وجود کا اقرار کرتے ہیں لیکن ان کا عمل حقیقت میں یہ ہے کہ وہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔

ایک زاہد کے مدعی کی خوبصورت بیوی تھی وہ اس کی ایک لونڈی بھی حسین تھی بیوی ہمیشہ شوہر کی نگرانی کرتی اور اسے کبھی تنہا اس لونڈی کے پاس نہ چھوڑتی تھی تقدیر کا حکم ہوا اور بیوی حمام میں تھی کہ اسے یاد آیا کہ وہ طشت گھر بھول آئی ہے لونڈی سے کہا! کہ فورا گھر جاؤ اور جا کر وہ طشت لے آؤ وہ حسین لونڈی بھی اپنے آقا کو پسند کرتی تھی جب وہ گھر پہنچی تو اس نے آقا کو خلوت میں پایا۔

شہوت کے جوش میں وہ دروازے کی کنڈی لگانا بھول گئے بیوی نے سوچا کہ میں نے تو روئی اور آگ کو خود اکٹھا کر دیا وہ تیزی سے گھر کی جانب بھاگی بی بی اور لونڈی کے بھاگنے میں بہت فرق ہے بی بی ڈر سے بھاگ رہی تھی اورلونڈی اپنے عشق کی وجہ سے بھاگ رہی تھی۔

یہی کیفیت عارف اور زاہد کی سیرالی اللہ کی ہے عارف کی سیر عاشقانہ اور زاہد کی سیر جہنم کے خوف کی وجہ سے ہے بس اور قبض اللہ عزوجل کی قدرت میں ہے عارف کا تھوڑا سا وقت عشق کے تحت بڑے بڑے کام کر جاتا ہے اور وہ قرب کے مقام جو زاہد 50 سال میں طے کرتا ہے عاشق ایک ہی دن میں طے کر جاتا ہے۔

بست و قبض کا یہ معاملہ عقل و وہم سے سمجھ نہیں آسکتا انسان شہوت اور بھوک کا غلام ہے اس کی صفت خوف ہے اللہ عزوجل کی صفت عشق ہے قرآن مجید میں ہے کہ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔

اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت اللہ عزوجل کی صفت ہے اور اللہ عزوجل کی ہر صفت کمال سے متصف ہے محبت کے کمال کو ہی عشق کہا جاتا ہے اسی لیے عشق بھی اللہ عزوجل کی صفت ہوا۔

عارف اور زاہد کی سیرالی اللہانسان میں اگر عشق ہے تو وہ اس صفت خداوندی کا پر تو ہے اصل نہیں عشق اور خوف میں بھی بہت فرق ہے اللہ عزوجل کی صفت عشق غیر محدود ہے اور خوف یعنی قیامت تک کا زمانہ محدود ہے غیر محدود محدود میں نہیں سما سکتا لہذا عشق خداوندی کا بیان قیامت تک بھی نہیں ممکن ہے۔

زاہد کے خوف کی سیر پاؤں کے ذریعے ہوتی ہے اور عارف کی پرواز 500 پروں والے عاشق کے ذریعے زاہد عشق کی گرد تک نہیں پہنچ سکتا اگر اللہ عزوجل کا نور زاہد کی دستگیری کرے تو پھر اس کو بھی عاشقانہ سیر حاصل ہو سکتی ہے عشق سے جذب پیدا ہوتا ہے اور جذب جبر واہ اختیار سے بالاتر ہے۔

وجہ بیان

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ یہاں عارف اور زاہد کی صحرالی اللہ کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ زاہد جو منازل 50 سالوں میں بھی طے نہیں کر سکتا عارف وہ منازل ایک لمحے میں طے کر جاتا ہے۔

عقل اور روح عین بہار ہے

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔