اللہ عزوجل سے رشتہ خلوص پر مبنی ہونا چاہئے
سلطان محمودغزنوی کے بیشتر درباری اس پر حیران ہوتے تھے کہ وہ اپنے غلام احمد ایازپر فریفتہ ہے اور ان درباریوں کو احمدایاز میں کوئی خوبی نظر نہ آتی تھی جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی اور سلطان محمود غزنوی کو اس کی جانب متوجہ کرتی۔
سلطان محمود غزنوی کو جب اپنے ان درباریوں کی حیرانگی کا علم ہوا تو اس نے ارادہ کیا کہ کوئی مناسب وقت آنےپر میں ان کی آزمائش کروں گا اور ان کے اعتراض کا انہیں جواب دوں گا۔
کچھ دنوں بعد ایک ایسا موقع آن پہنچا اور ایک سفر کے دوران قیمتی ساز و سامان سے لدا ہواایک اونٹ پاؤں پھسلنے کی وجہ سےگر پڑا اور اس پر موجود سامان بکھر گیا۔سلطان محمود غزنوی نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ وہ تمام سامان اکٹھا کرے اور جو چیز جس درباری کے ہاتھ لگ گئی وہ اس کی ہو گی۔
سلطان محمود غزنوی کا حکم سنتے ہی تمام درباری سامان لوٹنے میں مشغول ہوگئے اور احمد ایاز اس وقت سلطان محمود غزنوی کے ساتھ کھڑا رہا۔سلطان محمود غزنوی نےاحمد ایاز سے کہا کہ تمھارے ہاتھ کیا لگا؟ احمد ایاز کہنے لگاکہ میں آپ کے ہمراہ تھا۔سلطان محمود غزنوی نے اپنے ان حاسد درباریوں کو مخاطب کر کے کہا کہ احمد ایاز کی یہی خوبی ہے جو اسے تم سب سے ممتاز کرتی ہے۔
حضرت شیخ سعدی(رحمتہ اللہ علیہ)اس حکایت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کو اللہ عزوجل سے اپنا رشتہ اسی طرح جوڑ لینا چاہئے کہ وہ کسی دنیاوی شہ کی جانب متوجہ نہ ہو اور نہ ہی کوئی دنیاوی شے اس کے دل میں اپناخیال پیدا کر سکے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی(رحمتہ اللہ علیہ)اس حکایت میں احمد ایاز کا قصہ بیان کرتےہیں جو سلطان محمود غزنوی کا مشیر تھا۔احمد ایاز ایک سچا اورکھراانسان تھا اس کا رشتہ سلطان محمود غزنوی سے کسی غرض کے بغیر خلوص پر مبنی تھا اور دنیاوی سازو سامان کی اس کی نظر میں کچھ وقعت نہیں تھی۔اس وقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام انسان کو چاہئےکہ وہ اللہ عزوجل سے اپنا رشتہ احمد ایاز کے خلوص کی مانند قائم کریں اور دنیاوی سازو سامان سے قطع تعلقی اختیار کر کے خاص اللہ عزوجل کے ہو جائیں۔