اللہ کے خاص بندے روحانیت میں دلوں کے جاسوس ہیں
شناخت کے لیے نور باطن چاہیے جو زاہد کی پہچان کر سکے یہ نور ایسا ہے جو تقلید اور کجی سے پاک ہوتا ہے کہ انسان کو بغیر اس کا کام دیکھے یا بغیر اسے بات یہ پہچان سکے۔
اس کے دل میں نور عقل کے ذریعے گھس جائے اس کا اصل حال دیکھ لے اور سنی سنائی کا پابند نہ ہو اس غیب کے حال جاننے والے اللہ کے خاص بندے روحانیت میں دلوں کے جاسوس ہیں جب ان کے مقابل کے دل میں کوئی خیال آتا ہے تو پوشیدہ ان کے سامنے کھل جاتا ہے یہ وہی بات ہے کہ جیسے چڑیا کہ جسم میں کیا ساز و سامان ہوتا ہے جو وہ بعض کی عقل سے چھپ سکے۔جو شخص اللہ عزوجل کے رازوں سے واقف ہو گیا اس کے سامنے مخلوق کے بھیدوں کی کوئی حقیقت نہیں جس کا گداز آسمان پر ہوگی اس کے لیے زمین پر چلنا کیا مشکل ہوگا جب حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں میں لوہا موم ہو سکتا ہے تو پھر ان کے ہاتھ میں مومن کی کیا کیفیت ہوگی۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ شناخت کے لیے نور باطن کا ہونا لازم ہے اور اللہ کے خاص بندے روحانیت میں دلوں کے جاسوس ہیں جو شخص اللہ کے رازوں سے واقف ہو گیا اس کے لیے مخلوق کہ راز کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔