افریدون کا خیر خواہ وزیر
افریدون بادشاہ کا ایک وزیر اس کا وفادار اور خیر خواہ تھا اس کی یہی بات دوسروں کے لیے حسد کا باعث بن گئی اور حاسد ہر وقت اسی ٹوہ میں رہتے کی اسے بادشاہ کی نگاہ میں ذلیل و رسوا کر سکیں۔
اتفاق ان حاسدوں کو ایک ایسی بات معلوم ہو گئی اور انہوں نے بلا تاخیر وہ بات افریدون کے گوش گزار کر دی کہ وہ وزیر لوگوں کو اس شرط پر قرضہ دیتا ہے کہ جب بادشاہ کا انتقال ہو جائے گا تو وہ اس کی رقم لوٹا دیں بادشاہ کے لشکر کے بے شمار سپاہی ایسے ہیں جنہوں نے اس وزیر سے اس شرط پر قرضہ حاصل کیا ہے۔
افریدون نے جب یہ بات سنی تو غصے میں بھڑک اٹھا اور اس نے اس وزیر کو بلا کر نہایت برا بھلا کہا کہ تو نے میری مہربانیوں کا یہ صلہ دیا ہے۔وزیر نے عرض کیا: کی جو کچھ بادشاہ کو بتایا گیا وہ درست ہے اور اس کے پیچھے میرا مقصد بادشاہ کی بد خواہی نہیں بلکہ خیر خواہی ہے کہ لوگ دن رات بادشاہ کی لمبی عمر کی دعائیں مانگتے ہیں اور میں بھی انہیں اس امید پر قرض دیتا ہوں کہ انہیں جلد واپس نہ لوٹانا پڑے۔
افریدون نے جب اپنے وزیر کی بات سنی تو اس سے خوش ہوا اور اسے وزیراعظم کے مرتبہ پر فائز کر دیا۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں افریدون کے خیر خواہ وزیر کا قصہ بیان کر رہے ہیں جو اس امید پر لوگوں کو قرض دیتا تھا کہ وہ بادشاہ کے خیر خواہ رہیں اس وزیر کے حاسدوں نے بادشاہ سے اس کی شکایت کی تو بادشاہ اول تو بھڑک اٹھاپھر جب اس نے کہا: کہ وزیر کی بات سنی تو خوش ہو کر اسے وزیراعظم کے عہدے پر فائز کر دیا۔
بس یاد رکھو کہ نیک نیتی کا پھل ضرور ملتا ہے اور اگر انسان کی نیت درست ہو تو اس کے حاسد اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر انسان نیک نیتی کے ساتھ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کھڑا ہو اور اجزوا انکساری کا مظاہرہ کرے تو یقینا اللہ عزوجل اسے انعام و اکرام سے نوازے گا۔