عدل فاروق
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدائن کسرہ میں ایک لشکر بھیجا جب لشکر دجلہ کے کنارے پر پہنچا تو وہاں کوئی جہاز اور کشتی نہ تھی جس کے ذریعے پار ہوتے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جو اس لشکر کے جنرل تھے اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکر سے آگے بڑھ کر فرمایا۔
کہ اے دریا! اگر تو حکم الہی سے چلتا ہے تو ہم تجھے حرمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عدل فاروق عمر کا واسطہ دیتے ہیں کہ تو ہمیں راستہ دے دیتا کہ ہم باسانی پار ہو جائیں۔
یہ کہہ کر ان دونوں باہمت جرنلوں نے اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور جب جانسار اور وفادار لشکر نے اپنے سرداروں کے گھوڑے دریا میں دیکھے تو سب نے دفعتا گھوڑوں کی باگیں چھوڑ دیں اور دریا میں کود پڑے دریا نے ان پاک لوگوں کو راستہ دے دیا اور ان کے گھوڑوں کے گھر تک پانی سے تر نہیں ہوئے اور وہ صحیح سالم پار ہو گئے۔
(نزہۃ المجالس)
سبق
حضرت رضی اللہ عنہ کے عدل کی برکت تھی کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طفیل ظہور پذیر ہوئی اور بغیر کسی جہاز و کشتی کے سارا لشکر دریا سے پار ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سچے مسلمان اپنے نبی کی حرمت اور اپنے امیر کی عدالت پر اعتماد رکھتے ہیں اور بڑی سے بڑی رکاوٹ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔
اندھا اور لنگڑا چور