abdullah bin mubarak aur ek sayyad zada

عبداللہ بن مبارک اور ایک سید زادہ

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ایک بڑے مجمع کے ساتھ مسجد سے نکلے تو ایک سید زادہ نے ان سے کہا۔

اے عبداللہ! یہ کیسا مجمع ہے؟ دیکھ میں فرزند رسول ہوں اور تیرا باپ تو ایسا نہ تھا؟ حضرت عبداللہ بن مبارک نے جواب دیا: میں وہ کام کرتا ہوں جو تمہارے نانا جان نے کیا تھا اور تم نہیں کرتے اور یہ بھی کہا؛ کہ بے شک تم سید ہو اور تمہارے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میرے والد ایسے نہ تھے مگر تمہارے والد سے علم کی میراث باقی رہی اور میں نے تمہارے والد کی میراث لی اور عزیزوں اور بزرگ ہو گیا تم نے میرے والد کی میراث لی تم عزت نہ پا سکے۔

اسی رات خواب میں حضرت عبداللہ بن مبارک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ چہرہ مبارک آپ کا متغیر ہے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ رنجش کیوں ہے؟ فرمایا: تم نے میرے ایک بیٹے پر نقطہ چینی کی ہے۔

عبداللہ بن مبارک اور ایک سید زادہعبداللہ بن مبارک جاگے اور اس سیدزادہ کی تلاش میں نکلے کہ اس سے معافی طلب کریں ادھر اس سیدزادے نے بھی اسی رات کو خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حضور نے اس سے یہ فرمایا: کہ بیٹا اگر اچھا ہوتا تو وہ تمہیں کیوں ایسا کلمہ کہتا وہ سید زادہ بھی جاگا اور حضرت عبداللہ بن مبارک کی تلاش میں نکلا۔

چنانچہ دونوں کی ملاقات ہو گئی اور دونوں نے اپنے اپنے خواب سنا کر ایک دوسرے سے معذرت طلب کر لی۔

(تذکرۃ الاولیاء)

سبق

ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم امت کی ہر بات پر شاہد اور ہر بات سے باخبر ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی کسی چیز پر نقطہ چینی کرنا حضور کی خفی کا موجب ہے۔

کبوتر کے بچے

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔