آگ گلزار بن گئی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت مقام ہر مزجرد میں ہوئی۔ آپ کے والد تارخ یا آزربت ساز اور بت فروش تھے۔ وہ جب آپ کو بت بیچنے کے لئے بازار بھیجا کرتے تو آپ یہ کہتے۔
اے لوگو! یہ بت خرید لو جو نفع نہ نقصان دینے والے ہیں اور خود اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔
بعض اوقات اپ بتوں کے گلے میں رسی ڈال کر ان کو گھسیٹتے تھے اور ان کی خوب تحقیر کرتے تھے۔ جب اپ کو نبوت ملی اپ سن شعور میں داخل ہو چکے تھے۔ جب اپ نے تبلیغ شروع کی تو سب لوگ اپ کے خلاف ہو گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود بادشاہ سے منظرہ ہوا تو اس نے پوچھا۔
تمہارا رب کون ہے؟
اپ نے فرمایا کہ میرا رب زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے۔ یہ سن کر نمرود نے کہا یہ کام تو میں بھی کرتا ہوں۔ اس نے اسی وقت قید خانے سے ایک ایسے قیدی کو بلایا جس کو سزائے موت کا حکم ہوا تھا۔ نمرود نے اس کی سزا معاف کر دی اور کہا لو میں نے ایک شخص کو زندگی بخش دی جب کہ اسی وقت ایک بے گناہ شخص کو موت کی سزا دے دی۔
وہ شخص جب جلاد کے ہاتھوں قتل ہوا تو نمرود نے کہا میں نے اس کو موت دے دی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سب دیکھ کر کہا میرا رب تو ہر صبح سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اس کو مغرب سے نکالو۔
یہ سن کر نمرود لاجواب ہو گیا وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلائل سے نمرود لاجواب تو ہو گیا تھا مگر دل سے دین حق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے اپنی قوم کے ساتھ مل کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اگ میں زندہ جلانے کا منصوبہ بنایا۔
اگ جلانے کے لیے لکڑیاں اکٹھی کرنے میں ساری قوم نے حصہ لیا۔ ایک بہت بڑا گڈھا کھودا گیا اور اس میں لکڑیاں ڈال کر اگ لگا دی گئی۔
اگ کے شعلے اسمان سے باتیں کرنے لگے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں اس اگ کا ذرا بھی خوف پیدا نہ ہوا۔ انہیں یقین تھا کہ جس پروردگار نے انہیں پیدا کیا ہے وہی ان کی حفاظت کرے گا۔
ارشاد ربانی ہے۔
ہم نے حکم دیا اے اگ تو ابراہیم کے حق میں سرد اور سلامتی بن جا اور انہوں نے ابراہیم کے ساتھ کا ارادہ کیا پس ہم نے ان کو ان کے ارادے میں ناکام بنا دیا۔
جب نمرود اور اس کی قوم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اگ میں ڈالا تو وہ گلزار بن گئی۔ اپ پر اگ نے کوئی اثر نہ کیا۔