عابد کی دعا
ایک صحرہ میں ایک عبادت گزار عابد قیام پزیر تھا کچھ حاجی وہاں سے گزرے تو اسے گرم ریت پر عبادت میں مصروف دیکھ کر حیران رہ گئے کہ صحرا کی گرمی ہلاک کرنے والی تھی وہ اس قدر تکلیف دہ مقام میں اپنی عبادت پر اس قدر خوش تھا جیسے کوئی سبزہ گل میں مصروف ہو یا جیسے براق کی سواری پر ہو وہ خشوع خضوع اور عاجزی سے بھرپور اپنے دوست سے استغراق میں غم راز و نیاز کر رہا تھا حاجیوں کا وہ گروہ کھڑا ہو گیا اور انتظار کرنے لگا کہ وہ عابد اپنی نماز سے فارغ ہو۔
جب وہ عابد استغراقی کی کیفیت سے لوٹا تو انہوں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں اور چہرے سے وضو کا پانی ٹپک رہا ہے انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ یہ پانی کہاں سے آیا؟
اس نے آسمان کی جانب اشارہ کیا حاجی کہنے لگے: کہ اے دین کے بادشاہ! ہمیں اپنے راز سے آگاہ کرتا کہ تیری اس حالت سے ہمیں یقین کی قوت نصیب ہو۔
اس عابد نے ان کی دعا کی قبولیت کے لیے آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے اور کہا: کہ اے مول!ا میں عالم بالا سے رزق تلاش کرنے کا عادی ہوں کیونکہ تو نے میرے لیے اس کا دروازہ کھول رکھا ہے تو ان حاجیوں کی دعا قبول فرما لے تو نے مجھے کو کا مشاہدہ کروایا ہے۔
اس دوران ابر آیا اور اس نے برسنا شروع کر دیا ہر جگہ جل تھل ہو گیا حاجیوں میں سے کچھ کو یقین کامل کی دولت نصیب ہو گئی کیونکہ ہدایت اور یقین عطا کرنا اللہ عزوجل ہی کے اختیار میں ہیں ان حاجیوں میں کچھ لوگ کھوٹے اور کچھ کچے تھے یعنی ابدی ناقص تھے اور وہ محروم رہے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک عابد کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یقین کامل اور ہدایت کی دولت اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے ہی نصیب ہوتی ہے اور جو ہدایت کے طالب نہیں ہوتے وہ اس نعمت عظمی سے محروم رہ جاتے ہیں۔