ظالم حجاج پر اس کے ظلم کا عذاب ہمیشہ رہے گا
ایک نیک شخص نے حجاج بن یوسف کا اس طرح ادب نہ کیا جیسا ادب دوسرے کرتے تھے اور اس ادب کی توقع رکھتا تھا حجاج بن یوسف کو اس نیک شخص پر غصہ آگیا اور اس نے کوتوال کو حکم دیا کہ اس گستاخ کو قتل کروا دو اور اس کی کھال ادھیڑ دو حجاج بن یوسف کا حکم سننے کے بعد وہ نیک شخص پہلے تو ہنسا پھر رو پڑا۔
حجاج بن یوسف نے جب یہ عجیب معاملہ دیکھا تو اس نے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو پہلے ہنسا اور پھر رونے لگا اس نیک شخص نے جواب دیا کہ میں اس بات پر ہنسا کہ میں اپنے رب کے حضور اچھی حالت میں جاؤں گا جب کہ میرے کاندھوں پر کسی ظلم کا بوجھ نہیں ہوگا۔
اور میری حالت مظلوم کی سی ہوگی جو اللہ عزوجل کی رحمتوں سے نوازے جائیں گے جب کی میں رویا اس وجہ سے تھا کہ مجھے زمانے کی بے حسی پر افسوس ہوا کہ میرے چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کا میرے سوا کوئی سہارا نہیں ہے۔حجاج بن یوسف کے مشیروں میں سے ایک مشیر نے جب اس نے ایک شخص کی یہ بات سنی تو حجاج بن یوسف سے اس کی سفارش کی کہ اس کی جان بخش دی جائے اور اگر اسے قتل کیا گیا تو پھر یہ اکیلا قتل نہیں ہوگا بلکہ اور کئی جان بھی ہلاکت میں مبتلا ہو جائیں گی اس نیک شخص نے نہایت موثر انداز میں حجاج بن یوسف کو نصیحت کی تھی مگر اس بدبخت نے اپنا فیصلہ نہ بدلا اور اس نیک شخص کو قتل کروا دیا۔
حجاج بن یوسف کے جس مشیر نے اس کی سفارش کی تھی وہ بے حد ملول تھا اس رات اس نے اس نیک شخص کو دیکھا وہ کہہ رہا تھا مجھ پر جو ظلم ہوا اس کی تکلیف کچھ دیر کی تھی مگر اس ظالم حجاج پر اس کے اس ظلم کا عذاب ہمیشہ رہے گا۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں حجاج بن یوسف کے ظلم کا قصہ بیان کر رہے ہیں جس نے ایک نیک شخص کو صرف اس بات پر قتل کرنے کا حکم جاری کیا کہ اس نے اس کی عزت نہ کی تھی اس نے ایک شخص کی سفارش حجاج بن یوسف کے ایک مشیر نے کی مگر حجاج بن یوسف نے اپنا فیصلہ نہ بدلا۔
وہ نیک شخص اللہ عزوجل کی بارگاہ میں مقبول تھا اور ظالم حجاج پر اس کے ظلم کا عذاب ہمیشہ رہے گا بس یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا اعمال کی کھیتی ہے اور جو بو گے وہی کاٹو گے ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب روز محشر دینا ہوگا۔