تمام تدابیر اور ان کے نتائج کے انجام سے اللہ عزوجل باخبر ہے
نو شیرواں بادشاہ کے وزیر و مشیر کسی اہم مسائل پر بحث کر رہے تھے اور ہر ایک کی رائے دوسرے کی رائے سے مختلف تھی نوشیرواں نے خود بھی اس بحث میں حصہ لیا اور اپنی رائے پیش کی تو اس کے وزیر بزر جمہر نے اس کی رائے کو پسند کیا
۔نوشیرواں کہ دیگر وزیروں نے اس وزیر سے تنہائی میں پوچھا! کہ تمہیں بادشاہ کی رائے کیوں پسند آئی اس نے جواب دیا کہ بادشاہ کی رائے سے متفق ہونا ضروری ہے اور کسی بھی بات کا نتیجہ معلوم نہیں ہوتا.
کیونکہ تمام تدابیر اور ان کے نتائج کے انجام سے اللہ عزوجل باخبر ہےہو سکتا ہے کہ وہ رائے ٹھیک ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ رائے غلط ہو۔اگر ہماری رائے بادشاہ کی رائے کے مطابق ہو تو بادشاہ کی رائے اگرچہ غلط بھی ہو تو ہم اس کی ناراضگی سے بچ جائیں گے اگر ہماری رائے پر بادشاہ عمل کرے اور ہماری رائے غلط ہو تو ہم بادشاہ کے اطاعت سے نہیں بچ سکیں گے۔
بادشاہ کی رائے کے خلاف اپنی رائے دینا اپنے ہاتھوں کو اپنے ہی خون سے رنگنے کے مترادف ہے اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو کہہ دو کہ ہاں مجھے چاند ستارے نظر آتے ہیں۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اسی حکایت میں نوشیرواں عادل کی اپنے وزیروں سے کیے گئے مشورے کو بیان کر رہے ہیں کہ اس کے وزیر بزر جمہر نے نوشیرواں کی رائے کو ترجیح دی اور دیگر وزیروں نے اپنے مشورے دیتے رہے۔
دوسرے وزیر نے بعد میں بزر جمہر سے پوچھا کہ تم نے بادشاہ کی رائے سے اتفاق کیوں کیا تو اس نے کہا کہ تمام تدابیروں اور ان کے نتائجوں کے انجام سے اللہ عزوجل باخبر ہے۔اور ہماری رائے کو بادشاہ کی رائے کے مطابق ہونا چاہیے کہ اگر بادشاہ غلط بھی ہوگا تو ہم اس کے عتاب سے محفوظ رہیں گے۔
بس یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دنیاوی بادشاہ کے مصاحبوں کا حال ہے کہ وہ اس کی ناراضگی سے خوفزدہ ہیں اور ہم بادشاہ حقیقی کے کتنے نافرمان ہیں اور اس کی کتنی حکم عدولی کرتے ہیں ہمیں اس بادشاہ حقیقی کے اعتاب سے ڈرنا چاہیے جو دونوں جہانوں کا مالک ہے اور جس کے اگے کسی دنیاوی بادشاہ کی کچھ حقیقت نہیں۔