اس بے وفا دنیا سے دل نہ لگاؤ
ایک بادشاہ نے کسی جرم میں ایک شخص کے قتل کا حکم جاری کیا وہ شخص شدت غم میں پاگل ہو گیا اور اس نے بادشاہ کو خوب گالیاں نکالی اور وہ کہتے ہیں کہ جب بندہ جان سے جانے لگتا ہے تو اس کے دل میں جو ہوتا ہے وہ کہتا ہے جاتا ہے بوقت ضرورت جب بندہ بھاگ نہ سکے تو جلدی میں ہاتھ سے تلوار کی نوک کو بھی پکڑ لیتا ہے اور عربی زبان کے ایک شعر کا مفہوم ہے۔
جب انسان مایوس ہو جاتا ہے تو اس کی زبان لمبی ہو جاتی ہے اور جس طرح بلی گھبرا کر شیر پر حملہ کر دیتی ہے۔
بادشاہ اس شخص کی بولی سمجھ نہ سکتا تھا اسی لیے وہ نہ جان سکا کہ یہ شخص اس کے متعلق کیا کہہ رہا ہے بادشاہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ یہ شخص مجھے کیا کہتا ہے بادشاہ نے ایک نیک دل وزیر نے بادشاہ سے کہا یہ کہتا ہے کہ وہ لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں.
داناؤں کا قول ہے کہ وہ جھوٹ جو اپنے دامن میں خیر کا پہلو رکھتا ہو اس سچ سے اچھا ہے جس کی بدولت فتنہ شروع ہونے کا اندیشہ ہو۔بادشاہ جس شخص کے مشوروں پر عمل کرتا ہو اس پر افسوس ہوگا کہ وہ اچھی بات کہ سوا کوئی بات منہ سے نکالے اور اچھی بات کے سوا کوئی بات تو منہ سے نہ نکالو افریدون ایران کا بادشاہ جس نے زات کو شکست دے کر ایران توران روم اور شام پر قبضہ کیا تھا وہ لوگوں پر نہایت عدل کے ساتھ حکومت کرتا تھا اس کے محل کے محراب پر ایک شعر لکھا تھا جس کا مفہوم یہ ہے۔
اے بھائی دنیا کسی کے پاس ہمیشہ نہیں رہتی لہذا اس بے وفا دنیا سے دل نہ لگاؤ اور دنیا کو بنانے والے اللہ سے دل لگاؤ دنیا کی حکومت بھروسے کے قابل نہیں کیوں کہ اس نے کئی تجھ سے پیدا کیے اور پھر مار دیے اگر دنیا سے جانے والا نیک ہے تو پھر اس کی کچھ پرواہ نہیں کی اس کی موت خاک پر ہو یا تخت پر۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بادشاہ کا قصہ بیان کرتے ہیں جس نے ایک شخص کے قتل کا حکم جاری کیا تو اس شخص نے غصے میں بادشاہ کو گالیاں نکالنا شروع کر دیں بادشاہ اس شخص کی بولی سے ناواقف تھا اس نے اپنے مصاحبوں سے جب وہ اس شخص کے گفتگو کے متعلق دریافت کیا تو ایک نیک فطرت وزیر نے کہا! کہ یہ شخص آپ کی تعریف کر رہا ہے بادشاہ نے جب یہ بات سنی تو اس شخص کو معاف کر دیا۔
بادشاہ کے ایک اور وزیر نے بادشاہ سے کہا کہ وہ آپ کو گالیاں نکال رہا تھا بادشاہ نے اس وزیر کو برا بھلا کہا اور کہا کہ مجھے پہلے وزیر کا جھوٹ تیرے سچ سے اچھا لگا کہ اس میں بھلائی پوشیدہ تھی اور تیری بات میں برائی پوشیدہ ہے بس یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی کی فلاح کے ارادے سے جھوٹ بولا جائے تو وہ جھوٹ میں شمار نہ ہوگا نیز حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مشیروں اور وزیروں کی عادات و اتوار سے انہیں پہچانے اور ان کے ان مشوروں کو قبول کرے جن میں عوام الناس کی فلاح و بہبود کا پہلو پوشیدہ ہو۔