bhediye ka bachcha bhediya hi hota hai

بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے

عرب کے چوروں کے ایک گروہ نے کسی پہاڑی چوٹی پر قبضہ کر لیا ان چوروں سے اس پہاڑی کا قبضہ چھڑانے کے لیے اس وقت کے بادشاہ کا لشکر بھی عاجز رہا وہ چور پہاڑ کی ایک مضبوط ترین غار میں پناہ گزین تھے۔

بادشاہ وقت کو اس کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ اگر ان لوگوں کے شر پر قابو نہ پایا گیا تو ان کا شر اسی طرح بڑھتا جائے گا اور پھر ان پر قابو پانا بہت مشکل ہو جائے گا جو درخت ابھی جڑ پکڑ رہا ہے اسے اکھاڑنا زیادہ آسان ہے با نسبت اس کے کی وہ جڑ پکڑ جائے اگر وہ مکمل درخت بن گیا تو پھر اسے جڑ سے اکھاڑنا زیادہ مشکل ہوگا۔

اگر کسی چشمے کو اس کے ابتدا میں ہی کسی سوئی سے روک دیا جائے تو وہ رک جاتا ہے مگر جب وہ چشمہ پوری آب و تاب سے بہنا شروع ہو جائے تو پھر کسی ہاتھی کے ذریعے بھی اسے روکنا ممکن نہیں ہوتا چونکہ بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ ان ڈاکوؤں کی جاسوسی کروائی جائے جس وقت وہ ڈاکو لوٹ مار کرنے کے لیے چلے تو ان کی قیام گاہ وہ غر خالی ہو گئی۔بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہےبادشاہ نے تجربہ کار اور لڑائی کے ماہر سپاہیوں کو اس غار کی ایک گھاٹی میں تعینات کر دیا رات گئے جب وہ چور لوٹ مار کے بعد واپس لوٹے تو تھکے مارے ان چوروں نے اپنے ہتھیار اتارے اور لوٹا ہوا مال رکھا اور سو گئے رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد ان سپاہیوں نے ان چوروں کو سوتے وقت میں قابو کر لیا اور ان کے ہاتھ باندھ دیے صبح کے وقت انہیں بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔

عوام الناس جانتے تھے کہ ابھی ان سب چوروں کی گردنیں اڑا دی جائیں گی ان چوروں میں ایک خوبصورت جوان بھی تھا جس کی ابھی داڑھی نکل رہی تھی ایک وزیر کو اس جوان پر ترس آگیا اس نے بادشاہ کے تخت کو بوسہ دیا اور اس جوان کی سفارش کی کہ ابھی اس نے جوانی کا مزہ بھی نہیں چکا میں آپ کے عہدہ اخلاق سے امید کرتا ہوں کہ میری اس جوان کے حق میں سفارش قبول کیا جائے گا۔

اور اسے معاف کر دیا جائے گا یہ آپ کا میرے اوپر احسان ہوگا کہ اس جوان کو معاف کر دیا جائے بادشاہ نے جب وزیر کی بات سنی تو جلال میں آگیا اور یہ اس کے مزاج کے خلاف تھا جس کی حقیقت بری ہو وہ نیکیوں کے سائے میں بھی صحیح نہیں رہ سکتا اور نا اہل کی تربیت کرنا ایسا ہے جیسے گنبد پر اخروٹ رکھنا۔

بادشاہ نے کہا! کہ ان چوروں کو جڑ سے کاٹ دینا ہی بہتر ہے کیونکہ آگ بجھانے کے بعد ایک چنگاری کو چھوڑ دینا یا سانپ کو مار کر اس کے بچے کی پرورش کرنا عقلمندی کی دلیل نہیں اگر بادل سے آب حیات بھی برسے تب بھی بیت کی شاخ سے پھل حاصل نہیں ہوتا اور کمینے کے ساتھ وقت ضائع کرنا عقلمندی نہیں کیوں کی بوریے کہ ناریل سے شکر نہیں ملا کرتی۔

وزیر نے جب بادشاہ کا موقف سنا تو رضامندی ظاہر کرتے ہوئے بادشاہ کی رائے کو سراہا اور عرض کیا! کہ بادشاہ کا فرمان اپنی جگہ درست ہے مگر ان کی صحبت میں رہ کر یہ جوان ضرور انہی کی مانند ہو جاتا اور اگر یہ نیکیوں کی صحبت میں رہا تو ہو سکتا ہے کہ یہ نیک ہو جائے اور ان چوروں کی صحبت میں ابھی اس کے دل میں جڑ نہیں پکڑی۔

bhediye ka bachcha bhediya hi hota haiحدیث کے الفاظ بھی ہیں کی ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بروں کی صحبت میں رہا اس لیے خاندان نبوت سے اس کا تعلق ٹوٹ گیا اور اصحاب کہف کا کتا نیکیوں کی صحبت میں رہا اس لیے نیک کہلایا۔

وزیر کے دلائل سن کر دربار میں موجود کچھ لوگ اس کی رائے کو ترجیح دینے لگے چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی بادشاہ نے اس جوان کو معاف کر دیا رستم نے اپنے باپ ذال سے کہا تھا کہ دشمن کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہیے اور اس وقت اس کے باپ کے بال سفید تھے ہم نے متعدد مرتبہ دیکھا ہے کہ چھوٹا پانی کا چشمہ جب پھیل جاتا ہے تو پھر پورے اونٹ کو اس کے بوجھ سمیت بہا لے جاتا ہے۔

الغرض اس جوان کی تربیت نہایت ناز و نعم سے ہوئی اسے پڑھایا لکھا گیا اور اس کی تربیت کے لیے ایک استاد مقرر کیا گیا جو اسے آداب اور بادشاہوں کے حضور بیٹھنے کا سلیقہ سکھاتا تھا پھر اس جوان کی تعریف ہر کوئی کرنے لگا ایک وزیر نے بادشاہ کے سامنے اس کی خوبیاں بیان کی کہ اچھے استاد کی تربیت سے وہ جوان نیک ہو گیا ہے اور اس نے اپنی تمام بری عادات ترک کر دی ہیں بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے اگرچہ وہ انسانوں کی تربیت میں رہے اور موقع ملنے پر وہ اپنی پرانی خصلت کی جانب لوٹ جاتا ہے۔

وہ جوان بھی دو سال کی تربیت اور محنت کے باوجود علاقہ کے بدمعاش نوجوانوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا اور اس کی ان کے ساتھ دوستی ہو گئی ایک دن انہوں نے مل کر وزیر اور اس کے دو بیٹوں کے قتل کا منصوبہ بنایا اور وزیر اور اس کے بیٹے کو قتل کرنے کے بعد اس کا مال لے کر بھاگ گئے اس جوان نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لوٹ مار کرنے لگا اور اس نے بغاوت کر دی۔bhediye ka bachcha bhediya hi hota haiبادشاہ کو جب اس جوان کی اس حرکت کے متعلق معلوم ہوا تو اس نے افسوس کا اظہار کیا اور اپنی انگلی کو دانتوں میں دباتے ہوئے اشعار پڑھے جن کا ترجمہ زیل ہے۔

 گھٹیا اور زنگ الود ہے سے کبھی اچھی تلوار نہیں بن سکتی اور پڑھنےلکھنے سے کوئی نالائق لائق نہیں بن جاتا بارش کے پانی میں جوپاکیزگی ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر باغ میں پھول اگتے ہیں اور بنجر زمین میں بھی پھول نہیں اگتےکیونکہ اس میں وقت ضائع ہوتا ہے بروں کے ساتھ نیکی نیکوں کے ساتھ برائی کرنا ہے۔

وجہ بیان

حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں چوروں کے ایک گروہ کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ پکڑے گئے تو ان میں ایک نوجوان کو دیکھ کر بادشاہ کے وزیر نے بادشاہ سے درخواست کی کہ اس نوجوان کو معاف کر دیا جائے کہ ابھی وہ نابالغ ہےبادشاہ نے اپنے وزیر کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اس کی سفارش کر کے نقصان اٹھائے گا مگر وزیر بزد رہا بادشاہ نے اس نوجوان کو چھوڑ دیا وزیر نے اس نوجوان کی پرورش کی مگر چونکہ اس کی خصلت میں چوری کرنا ہی تھا۔

اس لیے ایک دن اس نے موقع پا کر اس وزیر اور اس کے بیٹوں کو قتل کر کے ان کا مال لوٹ لیا بادشاہ کو جب علم ہوا تو اس نے کہا کہ کبھی گھٹیا اور زنگ آلود تلوار بہترین نہیں ہو سکتی نیز اس کی حکایت سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ جس کی فطرت میں ہی برائی ہو اس پر کسی قسم کی اچھی تربیت کا کوئی اثر نہیں ہوتا بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے اور سانپ کا بچہ سانپ ہی ہوتا ہے جو موقع ملنے پر اپنے پالنے والے کو بھی ڈسنے سے گریز نہیں کرتا۔

لوگوں کے غم نے ہلاک کر دیا

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top