A huge ocean

پانی کا ایک قطرہ

پانی کا ایک ننھا سا قطرہ بادل سے ٹپکا اور دریا میں آن گرا اس ننھے قطرے نے جب دریا کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ کیا تو اسے اپنی ذات نہایت حقیر محسوس ہوئی وہ سوچنے لگا کہ اتنے بڑے دریا کے مقابلے میں بھلا میری کیا ہستی ہے؟ میں تو کسی شمار میں نہیں آتا؟ باقی بھی رہا تو کیا وہ فنا بھی ہو گیا تو کیا قطرے نے یہ تمام باتیں نہایت عجز و انکساری سے سوچی تھی۔A huge oceanایک صدف نے اسے منہ کھول کر اپنے اندر کر لیا اور پھر اس کی پرورش کر کے اسے ایک قیمتی موتی بنا دیا یقینا اسے یہ اعزاز و مرتبہ اس لیے حاصل ہوا کہ اس نے خود کو حقیر جانا اور جس نے خود کو حقیر جانا وہی بلند مرتبے کا حامل ہوا۔

وجہ بیان

حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں پانی کے ایک قطرے کی کیفیت بیان کر رہے ہیں کہ وہ دریا میں جانے کے بعد سوچنے لگا کہ میری حقیقت کیا ہے؟ اسے قطرے کی یہ بات عجز و انکساری پر مبنی تھی پس جس شخص نے بھی عجز و انکساری کا مظاہرہ کیا وہ یقینا بارگاہ الہی میں کامیاب و کامران ہوا اللہ عزوجل کو انسان کی جو نیکی سب سے زیادہ پسند ہے وہ اس کا اجر ہے اور عجز انکساری اختیار کرنا ہمارے آقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء اللہ کا شیوہ ہے۔

برے الفاظ سے یاد کرنا غیبت ہے

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔