جہاں تک ممکن ہو کسی کا دل نہ دکھاؤ
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں اپنا قصہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کچھ بزرگوں کے ہمراہ کشتی میں سوار تھا ہماری کشتی کے پیچھے ایک اور چھوٹی کشتی آرہی تھی جو ڈوب گئی اور اس میں سوار دو بھائی بھنور میں پھنس گئے۔
بزرگوں میں سے ایک نے ہماری کشتی کے ملا سے کہا کہ ان دونوں کو پکڑ کر زندہ نکال لو تو تمہیں ایک کے بدلے 50 دینار ملیں گے ملاح لپکا اور اس نے ایک کو زندہ نکال لیا جب کہ دوسرا ڈوب کر مر گیا۔
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یہ اس لیے مر گیا کہ اس کی زندگی مزید باقی نہ تھی اور شاید یہ اسی وجہ سے تو نے اسے پکڑنے میں کوتاہی کیملاح نے میری بات سنی تو ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ آپ جو فرماتے ہیں وہ درست ہے لیکن ایک بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ میں ایک مرتبہ جنگل میں جا رہا تھا سفر کرتے ہوئے میں تھک گیا یہ جو زندہ بچ گیا ہے اس نے مجھے اونٹ پر بٹھا لیا اور جو مرنے والا ہے اس نے ایک مرتبہ مجھے بچپن میں کوڑے سے مارا تھا ۔
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس ملاح کی بات سن کر کہا کہ اللہ عزوجل نے سچ کہا ہے کہ جو نیک کام کرے گا فائدہ اسی کو ہوتا ہے اور جو گناہ کرتا ہے نقصان اسی کو ہوتا ہے۔
پس جہاں تک ممکن ہو کسی کا دل نہ دکھاؤ کیوں کی اس راہ میں بے شمار کانٹے ہیں عنقریب بھلائی کا کام کرو کیوں کہ تیرے ابھی بہت سے کام باقی ہیں
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعہ کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ دنیا دار العلم ہے نیک اعمال کا اجز نیک اور برے اعمال کا نتیجہ برا ہے جس طرح ایک بھائی نے اس ملاح کے ساتھ احسان کیا اور دوسرے بھائی نے اس کے ساتھ ظلم کیا ملاح نے اس بھائی کو بچا لیا جس نے اس کے ساتھ احسان کیا اور جس نے اس پر ظلم کیا اس کو اس نے ڈوبتا رہنے دیا۔