hazrat sayyaduna usman gani aur mazhare khudawandi

حضرت سیدنا عثمان غنی اور مظہر خداوندی

عملی نصیحت کرتے ہوئے حکم کا لہجہ اختیار نہیں کیا جاتا پھر وہ ماتحتوں پر زیادہ اثر کرتی ہے وہ ناصح جس کا عمل دوسروں کو نصیحت کا سبب بنے وہ زیادہ بہتر ہے
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ممبر کے تین درجے تھے خطبہ کے وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اوپر درجے پر بیٹھا کرتے تھے پھر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے احتراما دوسرے درجے پر بیٹھنا شروع کر دیا حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے تیسرے درجے پر بیٹھنا شروع کیا حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ جب خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ پھر سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم والے درجے پر بیٹھنا شروع ہو گئے
لوگوں نے وجہ دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں تیسرے درجے پر بیٹھتا تو لوگ سمجھتے کہ میں عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسا ہوں اگر دوسرے درجے پر بیٹھتا تو لوگ سمجھتے کہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ جیسا ہوں اب اگر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم والے پہلے درجے پر بیٹھتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ان جیسا کوئی نہیں سمجھ سکتا
حضرت سیدنا عثمان غنی اور مظہر خداوندیحضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کافی دیر تک ممبر پر خاموش بیٹھے رہے اور پھر یہ کہہ کر ممبر سے نیچے اتر آئے کہ تمہارا میرا فعال ہے اور یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ صاحب قال ہوں آپ رضی اللہ تعالی عنہ ممبر پر خاموش بیٹھے تھے اور کسی کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے خطبہ دینے کو کہتا یا اٹھ کر چلا جاتا آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت مظہر خداوندی بنے ہوئے تھے وہ لوگ بھی اس مشاہدے کے اثرات محسوس کر رہے تھے
نابینا سورج کی تپش سے سورج کے طلوع ہونے کو سمجھتا ہے مگر اس نور کی تپش انسان کو بینا بنا دیتی ہے اس نور کی تپش سے اگرچہ ایک بے چینی محسوس ہوتی ہے لیکن دل میں اس سے کشادگی اور وسعت پیدا ہوتی ہے جس میں مشاہدہ کی صلاحیت نہیں وہ بھی اس نور سے متاثر ہوتا ہے اور خود کو بینا سمجھنے لگتا ہے
جس میں مشاہدہ کی قوت نہیں وہ خوشی میں مست ہو کر سمجھتا ہے کہ اسے مشاہدہ ہو گیا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ تھوڑی سی محنت کرے تاکہ وہ بھی اس مقام تک پہنچ سکے یہ اس شخص کی حالت ہے جسے مشاہدہ حاصل نہیں لیکن جس کو مشاہدہ حاصل ہے اس کی حالت اچھی ہے اس نور کی مشاہدے سے جو کیفیت حاصل ہوتی ہے اس کی تشریح حکیم بوعلی سینا بھی اپنی عقل اور فلسفے کی بنیاد پر نہیں کر سکتے یہ مقام مشاہدہ مجاہدے سے حاصل ہوتا ہے اور یہ پردہ دلائل سے نہیں ہٹ سکتا
جو شخص نبوت کے واسطے کے بغیر محض عقلی دلائل سے وصول الی اللہ کی کوشش کرتا ہے اس کے لیے ہلاکت سے ہلاکت ہے کیونکہ عقل کا وہ ہاتھ جو اس پردہ کو ہٹانے کی کوشش کرے گا خدائی تلوار وہ ہاتھ ہی کاٹ دے گی عقل کے ہاتھ سے یہ پردہ ہٹانے کی کوشش دراصل ممکن ہی نہیں
یہ اس طرح فرضی بات ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ اگر خالہ کے خصیے ہوتے تو وہ خالو بن جاتی زبانی دلائل سے مشاہدہ تک پہنچنے کے لیے اگر میں 20 سال کا فاصلہ بتاؤں تو وہ بھی کم ہے کہیں مشاہدے کی دوری سے وہ گھبرا کر اس کی کوشش نہ چھوڑنا کیونکہ جب اللہ عزوجل اس فاصلے کو کم کرنا چاہیں گے فورا کم کر دیں گے
ستاروں کا فاصلہ زمین سے کروڑوں سال کی مسافت ہے لیکن قدرت خداوندی ان کی روشنی کو انا فانن زمین تک پہنچا دیتی ہے جب چاند اور سورج اپنی روشنی کو زمین کی تاریکی مٹانے کے لیے پھیلاتے ہیں تو اللہ عزوجل اپنی صفات میں ان سے زیادہ مضبوط ہے اللہ عزوجل کی قدرت یہ ہے کہ وہ مختلف اجسام کے اثرات جو کی مثبت ہوں یا منفی زمین کی مخلوق کے مطابق باوجود اس قدر فاصلے کے ان کو زمین تک پہنچاتا ہے یا ان نقصان و اثرات کو ختم کر دیتا ہے افتاب حق کے سامنے ان اثرات کی کیا حقیقت ہے
جس طرح ستارے زمین پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی طرح انبیاء علیہ وسلم اور اولیاء اللہ کا وجود ستاروں پر اثر انداز ہوتا ہے اہل عقل انسان کو عالم صغیر اور جہاں کو عالم کبیر تصور کرتے ہیں اہل اللہ قرب حق کی وجہ سے انسان کو جہانے کبیر اور دنیا کو جہان صغیر سمجھتے ہیں ایسا اس لیے ہے کہ اہل فلسفہ کی نگاہ صرف انسانی جسم پر ہے
waqiat in urduاگر انسان کی تخلیق قدرت کی منشا کے مطابق نہ ہوتی تو اس عالم کو پیدا نہیں کیا جاتا درخت کی ٹہنی پہلے ہوتی ہے پھر پھل اور اگر پھل کو حاصل کرنا مقصود نہ ہوتا تو ٹہنی کے وجود کی کیا اہمیت پھل مقصود نہ ہوتا تو پھر کوئی درخت بھی نہ ہوتا پس زمانی طور پر پھل بعد میں ہے لیکن غایت کے اعتبار سے وہ پہلے ہے
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میں بروز محشر لوآئے حمد اٹھانے والا ہوں جس کے نیچے حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہ السلام ہوں گے اور میں اس پر فخر نہیں کرتا اسی لیے فرمایا گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی تخلیق سے مقصود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی
چونکہ مقصود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی اس لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ میں تمام انبیاء علیہ السلام کے آخر میں بھیجا گیا ہوں لیکن چونکہ میں مقصود ہوں اس لیے میں سب سے پہلے ہوں چونکہ حضرت آدم علیہ السلام کا ظہور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی وجہ سے ہوا اور حضرت آدم علیہ السلام کو ملائکہ نے سجدہ اس لیے کروایا گیا کہ ان کی پشت پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کا نور موجود تھا ہونے والی ہر شے کا تصور اور فکر اس کے خارجی وجود سے قبل ہوتا ہے
ذکر اور مشاہدے کے درمیان فاصلے سے سالک کو گھبرانا نہیں چاہیے قدرت جب چاہے گی اس فاصلے کو ختم کر دے گی اگر سفر میں کامیابی ہو جاتی ہے تو راستے کا فاصلہ اور دشواری ہرگز محسوس نہیں ہوتی انسان کا دل ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے کعبہ پہنچ جاتا ہے اللہ عزوجل کا کرم ہو تو جسم بھی دل کی رفتار اختیار کر لیتا ہے بہت سے اولیاء اللہ نے ایسی کرامت ظاہر ہوئی ہے راستے کی لمبائی جسم کے لیے ہے روح کے لیے نہیں
معراج کی رات انبیاء علیہ السلام کے ساتھ بھی یہی صورت پیش آئی مجاہدہ کرنے والے کو بس قیل و قال ختم کر کے عمل میں مشغول ہونا چاہیے اللہ عزوجل سے امید ہے کہ وہ مشاہدے کی منزل تک پہنچا دے گا دنیا سے آنکھیں بند کر کے عمل کیا جائے تو منزل ضرور مل جاتی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی سیرت پاک پر عمل کرنے سے یقینا انسان نجات پا سکتا ہے
سالک کے لیے مرشد کامل کی محبت حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا کام کرتی ہے سالک خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو راہ سلوک بغیر شیخ کے کامل کے طے کرنا مشکل ہے شیخ کامل کبھی سالک کی تربیت صفت جمال سے کرتا ہے اور کبھی صفت جلال سے شیخ کامل کی نرمی اور سختی دونوں روحانی مدارج کی ترقی کا سبب بنتی ہیں شیخ کامل کی محبت اور غصہ دونوں کے اثرات مرید کے لیے مفید ہیں لہذا اثر کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد نہیں ہے شیخ کامل اپنے قہر سے مرید کو متواضع بناتا ہے اور اس میں اخلاق حسنہ کا بیچ بیچ بوتا ہے مرید کی اس روحانی شادابی کو شیخ کامل دیکھتا ہے شیخ کامل کے ساتھ بے اعتقادی حصول فیض کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ یمن میں رہائش پذیر تھے اور وہ بہت بڑے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے وہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر نہ ہو سکے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یمن کی جانب سے اللہ عزوجل کی خوشبو پاتا ہوں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کی خوشبو ہے
بزرگوں کی صحبت میں جو معراج ملتی ہے وہ ایسی معراج نہیں ہوگی جیسے کہ دھوئیں یا غبار کا اوپر کی جانب اٹھ جانا بلکہ ایسی معراج بامعنی ہوگی جیسے کہ بعض کو معراج حاصل ہو کے اس میں شکر پیدا ہو جاتی ہے
hazrat sayyaduna usman gani aur mazhare khudawandiفنا کا مقام حاصل کر چکو گے تو خود بخود تمہیں بقا کی جانب لے جائے گا اس طرح فنا کے عروج کے بعد تم سیر نزولی کر کے پھر اپنی ہستی میں آجاؤ گے فنا کا مقام حاصل ہو جانے پر سالک دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے شیخ کامل کی صحبت میں جو سیر ہوتی ہے وہ ایسی ہی ہوتی ہے جس طرح جانے معشوقی کی جانب کھنچ چلی جاتی ہے
اس سیر میں ہاتھ اور پاؤں کا کچھ کام نہیں ہے اور یہ ایسی سیر ہے جیسی روح کی سیر عدم سے وجود کی جانب ہوتی ہے یہ عروج و نزول اور فنا و بقا کا بیان اس درجے کا ہے کہ اس کے بعد کسی عقلی دلیل کی کوئی حاجت باقی نہیں رہ جاتی اگر سننے والا اپنے ہوش و حواس سے اسے سن لے پس مرید جس قدر بھی اعتقاد کے موتی برسائے گا اس میں اسی کا فائدہ ہوگا

وجہ بیان

مولانا رومی رحمہ اللہ تعالی علیہ اس حکایت کے اغاز میں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا عثمان غنی ,مظہر خداوندی تھے اور جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو ممبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس مرتبے پر بیٹھے جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھا کرتے تھے
نیز اس حکایت میں مرشد کامل کی عظمت کو بھی اجاگر کیا گیا کہ مرشد کامل کی ذات ایسی ذات ہے جس کے بغیر سالک کی تمام کوششیں بیکار ہیں مرشد کامل چونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہوتا ہے اور براہ راست ان سے فیض پاتا ہے اس لیے سالک اس کی صحبت میں رہ کر اپنے مقصد حقیقی کو پا سکتا ہے

ملائکہ کی تصدیق غوث پاک کے حق میں

 

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top