فاروق اعظم کی شہادت

فاروق اعظم کی شہادت

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک رات خواب میں دیکھا: کہ ایک سرخ رنگ کے مرغ نے آپ کے بدن میں دو تین ٹھونگیں ماری ہیں آپ نے یہ خواب خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا: اس خواب کی یہ تعبیر بیان کی گئی کہ کوئی کافر عمر کو شہید کر دے گا۔ چنانچہ جمعہ کے روز یہ خواب بیان کیا گیا اور بدھ کے دن صبح کی نماز میں آپ زخمی کیے گئے آپ کی یہ عادت تھی کہ نماز شروع کرنے سے پہلے صفوں کو سیدھا کیا کرتے تھے جب صفیں سیدھی ہو جاتی تب اللہ اکبر! کہہ کر: نیت باندھتے تھے بدھ کے دن جب آپ نے صفیں سیدھی کرنے کے بعد نیت باندھی تب فیروز نامی ایک آتش پرست مشرک غلام نے آپ کو دو دھاری چھری سے زخمی کر دیا۔

فاروق اعظم کے شکم پر زخم آیا آپ کو گرا کر وہ کافر فیروز بھاگا راستہ میں جماعت کے اندر اور بھی صحابہ کی شدت شدید زخم لگائے آخر ایک انصاری نے اس پر اپنے کمبل کو ڈال کر اسے پکڑ لیا: جب اس ظالم نے جان لیا کہ اب میں پکڑا گیا ہوں اور میرا حشر برا ہوگا تو وہ کافر اپنے ہاتھ سے چھری مار کر مر گیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف کو اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے حکم دیا: اور خود وہیں بیٹھ کر نماز پڑھتے رہے اور زخمی ہو کر بھی وہیں حاضر رہے جب لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابن عباس سے فرمایا: اے ابن عباس! دیکھو تو مجھے کس نے قتل کیا ہے ابن عباس نے عرض کیا: کہ ایک آتش پرست مشرک غلام نے جس کا نام فیروز ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: الہی ! تیرا شکر ہے میری موت کسی کلمہ گو شخص کے ہاتھوں نہیں ہوئی۔

فاروق اعظم کی شہادتآپ کو شدید زخم آیا تھا حتی کہ آپ کو جو شربت پلایا گیا وہ زخم کے راستے سے باہر نکل آیا لوگ آپ کو پوچھنے کے لیے آتے تھے ایک نوجوان آیا اور حال پوچھ کر لوٹا تو حضرت عمر نے دیکھا: کہ اس کا تہبند زمین سے لگتا ہے فرمایا: اس نوجوان کو میرے پاس واپس لاؤ جب وہ دوبارہ حاضر ہوا تو فرمایا: میاں اپنے تہبند کو اونچا کر لو یہ عمل اللہ کے نزدیک اچھا ہے اور تمہارا کپڑا بھی زمین پر خراب ہونے سے محفوظ رہے گا۔

جب آپ کی حالت زیادہ خراب ہو گئی تب آپ نے اپنے صاحبزادے عبداللہ سے فرمایا: بیٹا! تم ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے میرا سلام کہہ کر عرض کرنا: کہ عمر نے آپ سے اذن چاہا ہے کہ آپ اپنے حجرے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں میں دفن ہونے کی اجازت فرمائیں۔

چنانچہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے کیا دیکھتے ہیں کہ ام المومنین بھی حضرت عمر کے غم میں رو رہی ہیں حضرت عبداللہ نے حضرت عمر کا سلام و پیغام عرض کیا: تو ام المومنین نے فرمایا: کہ یہ جگہ خاص میں نے اپنے لیے رکھی تھی مگر میں اپنی جان سے عمر کی جان کو زیادہ پسند کرتی ہوں اور اجازت دیتی ہوں کہ شوق سے اس مبارک جگہ میں دفن کیے جائیں۔

جب حضرت عبداللہ یہاں سے اجازت لے کر واپس آئے اور حضرت عمر کو ان کا اجازت دے دینا سنایا تو حضرت عمر نے فرمایا: الحمدللہ! اجازت مل گئی مگر اے عبداللہ! تم ایک کام کرنا جس وقت میں مر جاؤں میرے جنازے کو تیار کر کے پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے سامنے لے کر لے جا کر رکھ دینا اور کہنا: اس وقت عمر کا جنازہ حاضر ہے اور آپ سے اجازت چاہتا ہے اگر اس وقت بھی اجازت فرمائیں تو اندر دفن کر دینا مجھے اندیشہ ہے کہ شاید کچھ میرے لحاظ سے اجازت دی ہو اس لیے بعض وفات پھر اجازت لے لینا۔

اور پھر فرمایا: بیٹا میرا سر تکیہ سے ہٹا کر زمین پر ڈال دینا کہ میں اپنا سر خدا کے سامنے زمین پر ڈال کر گڑگڑاؤں تک ہی میرا رب مجھ پر رحم فرمائے اے بیٹا! میں مر جاؤں تو میری آنکھیں بند کر دینا اور میرے کفن میں میانہ روی کرنا اسراف نہ کرنا کیوں کی میں اگر خدا کے نزدیک کچھ اچھا ٹھہروں گا تو مجھے دنیا کے کفن سے بہت بہتر کفن مل جائے گا اور اگر میں برا قرار دیا گیا تو یہ بھی میرے پاس نہ رہے گا بیٹا اگر سارے جہان کی دولت اور سامان اس وقت میرے پاس ہوتا تو میں اسے قیامت کے دن کی گھبراہٹ سے نجات پانے کے لیے خیرات کر دیتا۔

یہ سن کر! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ قسم اللہ کی میں تو آپ کے متعلق یہ یقین رکھتا ہوں کہ آپ تو برائے نام ہی قیامت کی ہولناک چیزیں دیکھیں گے کیونکہ آپ امیر المومنین ہیں امین المومنین ہیں سید المومنین ہیں آپ کتاب اللہ سے اور نہایت انصاف سے فیصلہ کرنے والے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابن عباس کی تقریر بہت پسند آئی اور سخت تکلیف کے باوجود جوش و شوق میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اے ابن عباس! کیا تو ان باتوں کی شہادت قیامت کے دن اللہ کے سامنے دے گا؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا: ہاں! دوں گا یہ سن کر حضرت عمر کو اطمینان ہوا اس کے بعد بہت سی نصیحتیں اور وصیتیں فرمائیں اور انتقال فرما گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔

farooq e aazam ki shahadatپھر آپ کے جنازے کو تیار کر کے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ شریف کے سامنے لا کر رکھا گیا اور با آواز بلند عرض کیا گیا: اے ام المومنین! یہ جنازہ عمر کا حاضر ہے اور اب پھر آپ سے اجازت مانگتا ہے کہ اگر حکم ہو تو حجرہ شریف میں دفن کیا جائے حضرت ام المومنین روتی تھی اور فرماتی تھی کہ میں خوشی سے آج پھر حضرت عمر کو اجازت دیتی ہوں چنانچہ آپ کو حجرہ شریف میں حضور کے قدموں میں دفن کیا گیا۔

جس دن حضرت عمر کا انتقال ہوا اس دن سورج کو گہن لگا سارے مدینے میں اندھیرا ہوا اس طرف لوگوں کا رونا ادھر سورج کا سیاہ ہونا ایک معرکہ قیامت کا نظر آتا تھا مدینہ کے بچے اپنی ماں سے پوچھتے تھے اے ماں! کیا آج قیامت ہے؟ مائیں کہتی تھیں نہیں ! آج امیر المومنین عمر کا انتقال ہوا ہے۔

بعد از وفات حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا: اے امیر المومنین! کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا: میں نے اپنے رب کو بڑا رحم والا پایا۔

(سیرت الصالحین)

سبق

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قطعی جنتی ہونے کے باوجود خوف الہی دیکھیے کہ کس طرح اللہ کے حضور حاضر ہونے سے خشیت کا اظہار فرماتے تھے اور نزع کا عالم ہے مگر خلاف شریعت بات نہیں دیکھ سکتے اور نوجوان کو تہبند اونچا باندھنے کی نصیحت فرماتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ مسلمان کو بہرحال شریعت کا پابند اور شریعت کے خلاف ہر بات سے بیزار رہنا چاہیے اور اللہ کے حضور حاضر ہونے سے ڈرتے رہنا چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صدیق اکبر کی طرح فاروق اعظم بھی بڑے ہی خوش قسمت تھے کہ انہیں بھی حضور کے ساتھ ہی دفن ہونے کو جگہ ملی۔

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔