farooq e azam aur ek budhiya

فاروق اعظم اور ایک بڑھیا

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنی رعیت کے حالات کا مطالعہ فرمانے گشت لگا رہے تھے کہ ایک بڑھیا عورت کو اپنے خیمہ میں بیٹھے دیکھا آپ اس کے پاس پہنچے اور اس سے پوچھا: اے ضعیفہ! عمر کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ بولی: خدا عمر کا بھلا نہ کرے حضرت عمر بولے: یہ تم نے بددعا کیوں کی؟ عمر سے کیا قصور سرزد ہوا ہے وہ بولی: عمر نے آج تک مجھ غریب بڑھیا کی خبر نہیں لی اور مجھے کبھی کچھ نہیں دیا۔

حضرت عمر بولے: مگر عمر کو کیا خبر کی اس خیمہ میں امداد کی مستحق ایک ضعیفہ رہتی ہے وہ بولی: سبحان اللہ! ایک شخص لوگوں پر امیر مقرر ہو اور پھر وہ اپنے مملکت کہ مشرق و مغرب سے ناواقف ہو تعجب کی بات ہے یہ بات سن کر حضرت عمر رو پڑے اور اپنے آپ کو مخاطب فرما کر بولے: اے عمر! تجھ سے تو یہ بڑھیا ہی دانا نکلی۔

پھر آپ نے اس بڑھیا سے فرمایا: اے اللہ! کی بندی یہ تکلیف جو تمہیں عمر سے پہنچی ہے تم میرے ہاتھوں کتنے داموں پر بیچو گے میں چاہتا ہوں کہ عمر کی یہ لغزش تم سے قیمتا خرید لوں اور عمر کو بچا لوں۔

فاروق اعظم اور ایک بڑھیابڑھیا بولی: بھائی مجھ سے مذاق کیوں کرتے ہو فرمایا: نہیں میں مذاق ہرگز نہیں کرتا سچ کہہ رہا ہوں کہ تم یہ عمر سے پہنچی ہوئی اپنی تکلیف بیچ دو جو مانگو گی اس کی قیمت دے دوں گا بڑھیا بولی تو 50 دینار دے دو یہ بات ہو رہی تھی کہ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور آکر کہا: السلام علیکم یا امیر المومنین بڑھیا نے جب "امیر المومنین” کا لفظ سنا تو بڑی پریشان ہوئی اور اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر بولی غضب ہو گیا یہ تو خود ہی امیر المومنین عمر ہے۔اور میں نے انہیں منہ پر ہی کیا کچھ کہہ دیا۔

حضرت عمر نے بڑھیا کی یہ پریشانی دیکھی تو فرمایا: ضعیفہ گھبراؤ مت خدا رحم فرمائے تم بالکل سچی ہو پھر آپ نے ایک تحریر لکھی جس کی عبارت بسم اللہ کے بعد یہ تھی کہ یہ تحریر اس امر کے متعلق ہے کہ عمر بن خطاب نے اس ضعیفہ سے اپنی لفظی اور اس ضعیفہ کی پریشانی جو عمر کے عہد خلافت سے لے کر آج تک واقع ہوئی 50 دینار پر خرید لی اب یہ بڑھیا قیامت کے دن اللہ کے سامنے عمر کی کوئی شکایت نہ کرے گی اب عمر اس لغزش سے بری ہے۔

اس بیع پر علی ابن طالب اور ابن مسعود گواہ ہیں یہ تحریر لکھ کر بڑھیا کو 50 دینار دے دیے اور اس تحریر کو حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے کو دے دیا اور فرمایا: جب میں مروں تو میرے کفن میں اس تحریر کو رکھ دینا۔

 (حیوۃ الحیوان)

سبق

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو قطعی جنتی ہیں ان کا مبارک حال دیکھ کر ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ کل قیامت کے دن جب ہمارا اعمال نامہ ظاہر ہوا تو ہم کیا جواب دیں گے اور آج کل دنیا کے سربراہوں کو بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی رعایہ کا کہاں تک خیال رکھتے ہیں۔

پل صراط کی راہداری

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔