مقدس نقاب پوش
مدینہ منورہ کا مقدس و مطہر شہر رحمت ہے اور فاروق اعظم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ مسند نشین خلافت میں سر انور پر خلافت نبوی کا تاج سج رہا ہے اور ہر طرف عدل و انصاف کا ڈنکا بج رہا ہے آدھی رات کا وقت ہے دیار حبیب کے خوش نصیب باشندے اپنے اپنے گھروں میں اضطراحت فرما رہے ہیں۔
اس آدھی رات کے وقت اس پاک شہر میں ایک نقاب پوش اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ شہر کا چکر لگا رہا ہے اور ہر گلی کوچہ اور ایک ایک مکان کو بغور دیکھتا ہوا جا رہا ہے اچانک اس نے ایک مکان سے دھندلی سی روشنی نکلتی دیکھی نقاب پوش وہاں رک گیا اور ساتھی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔
نقاب پوش نے کہا: تم نے دیکھا اس مکان سے روشنی اشکار ہے اور میرے خیال میں صاحب خانہ بھی بیدار ہے۔
ساتھی: ہاں حضور ایسا ہی ہے اور سنیے تو بچوں کے رونے کی بھی آواز آرہی ہے اور دیکھیے یہ غالبا بچوں کی ماں ہے جو انہیں سمجھا رہی ہے اور چپ کرا رہی ہے۔
نقاب پوش: خاموش رہ کر سنو اور غور کرو یہ قصہ کیا ہے؟ چنانچہ وہ نقاب پوش اور اس کا ساتھی ہماتن گوش ہو کر مکان کی آواز سننے لگے اور انہوں نے سنا کہ مکان کے اندر بچوں اور ان کی ماں میں یہ گفتگو ہو رہی ہے۔
ایک بچہ: امی جان کتنا وقت گزر گیا ہے آدھی رات ہونے کو آئی اور ابھی تک نہ ہنڈیا پکی اور نہ ہم نے کچھ کھایا۔
دوسرا بچہ: امی یہ دیکھ تیرا بچہ بھوک سے مر رہا ہے خدارا کچھ کھانے کو دو امی جان کچھ کھانے کو دو۔
تیسرا بچہ: روتے ہوئے یا اللہ رحم فرما اور ہماری اس ہنڈیا کو خوب پکا عطا کی ہم کچھ کھا سکیں اور اپنی جان بچا سکیں۔
ماں: میرے بچوں گھبراؤ نہیں صبر کرو اور خدا پر بھروسہ رکھو یہ دیکھو تمہارے سامنے ہی ہنڈیا چڑھا رکھی ہے خدا کو منظور ہوا تو ابھی اس صبر کا پھل پاؤ گے اور سب مل کر کھانا کھاؤ گے۔
یہ گفتگو سن کر وہ نقاب پوش مکان کے اندر پہنچ گیا بچے اور ان کی ماں ایک اجنبی نقاب پوش اور اس کے ساتھی کو دیکھ کر گھبرا گئے اور وہ عورت بولی۔۔۔
عورت: تم کون ہو؟ اور میرے مکان کے اندر کیوں آئے؟
نقاب پوش: بہن میں اب اس وقت اپنے ایک مقصود عزیز کی خاطر تمہارے مکان کے پاس سے گزر رہا تھا میں نے تمہاری اور تمہارے بچوں کی دردناک گفتگو سنی میرا دل تمہاری اس گفتگو سے تڑپ کر رہ گیا معاف کرنا میں اصل قصہ معلوم کرنے اندر آگیا ہوں۔
عورت: بھائی تم اپنی راہ لو نہ جان نہ پہچان مجھے بد نصیب کا قصہ سن کر کیا کر لو گے اگر سن لو گے تو میرا کیا فائدہ اور نہ سنو گے تو تمہارا کیا نقصان؟
نقاب پوش: بہن تم مجھے اپنا دشمن نہ سمجھو اور نہ یہاں میرا پہنچنا بےکار جانو تم اپنا قصہ سناؤ اور مجھے اپنا ہمدرد یقین کرو۔
عورت: میں غریب ہوں غمزدہ ہوں اور حیران ہوں اور ان بچوں کے لیے بڑی پریشان ہوں چھوڑو اس قصہ کو اور میرے زخموں دل کے ٹانکوں کو نہ ادھیڑو۔
نقاب پوش: بہن میری التجا پر تمہیں کان دھرنا ہی ہوگا اور اصل واقعہ ظاہر کرنا ہی ہوگا۔
عورت: اچھا تو لو سنو! مجھے امیر المومنین عمر سے شکایت ہے وہ ہمارا امیر ہے خدا نے اسے ہماری حفاظت و خدمت کے لیے مسند خلافت پر بٹھایا ہے مگر اس نے مجھے غریب بیوہ عورت کی خبر نہ رکھی دو روز سے میں اور میرے یتیم بچے فاقہ سے ہیں آج یہ بھوک سے نڈال ہو گئے تو میں نے محض ان کا دل بہلانے کی خاطر اول شب سے اس ہنڈیا کو چولہے پر چڑھا رکھا ہے۔
اور ہنڈیا میں بجز نہ پانی کے اور کچھ بھی نہیں ان کو یوں ہی تسلیاں دیتے دیتے صبح ہو جائے گے اور صبح پھر جو خدا کو منظور ہوگا وہ ہوگا افسوس کہ امیر المومنین کو میرے ان یتیم اور بھوکے بچوں کا کچھ پتہ نہیں۔
نقاب پوش: (غمزدہ آواز میں) بہن! لیکن عمر کو کیا خبر کی تم اس حال میں ہو تم نے کیوں اس تک پہنچ کر اسے اپنے حالات سے آگاہ نہیں کیا۔
نقاب پوش: یہ سن کر رونے لگا اور فورا مکان سے نکلا اور تھوڑی دیر کے بعد اپنی پیٹھ پر اٹے کی ایک بوری اٹھائے ہوئے اندر داخل ہوا اور بوری کو پیٹ سے اتار کر اور کپڑے جھاڑے اور اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا۔
نقاب پوش: الحمدللہ اٹے کی بوری میں خود اٹھا کر لے آیا۔
ساتھی: حضور میں نے عرض کی تھی میں بوری اٹھاتا ہوں مگر آپ نے میری عرض کو قبول نہیں فرمایا۔
نقاب پوش: کیا قیامت کے دن بھی میرا بوجھ اٹھا لو گے اگر نہیں تو پھر یہاں بھی یہ بوجھ مجھے کو اٹھانا مناسب تھا۔
عورت: یہ منظر دیکھ رہی تھی بھائی خدا تم پر ہزار ہزار برکتیں نازل فرمائے تم تو کوئی فرشتہ خصلت انسان ہو میں تو اب بہت شرمندہ ہوں کی اپنا قصہ تمہیں سنا کر تمہیں ناحق کوفت میں ڈالا۔
نقاب پوش: ان باتوں کو رہنے دیجیے اور مجھے اپنا فرض ادا کرنے دیجئے۔
نقاب پوش: نے پھر بوری سے اٹا نکالا خود ہی گوندھا اور خود ہی آگ سلگائی ساتھی کا بیان ہے کی چولہے میں پھونک مارتے ہوئے میں نے نقاب پوش کی داڑھی سے دھواں نکلتے دیکھا روٹیاں بھی خود ہی اس فرشتہ خصلت انسان نے پکائیں اور پھر ان بچوں کو کھلائیں اور پھر ان روتے ہوئے یتیم بچوں کو کھانا کھلا کر خوش طبیعت کی باتیں کر کے ہسایا اور کہا: میں چاہتا ہوں کہ جن آنکھوں سے میں نے ان بچوں کو روتے ہوئے دیکھا ہے انہیں آنکھوں سے انہیں ہنستا ہوا بھی دیکھوں۔
نقاب پوش: کا یہ سلوک رحمت دیکھ کر وہ عورت بڑی متاثر ہوئی اور بولی۔۔
عورت: خوش دل انسان تم نے تو کمال کر دیا اور ہم غریبوں کو خوشحال کر دیا۔
نقاب پوش: کیا واقعی تم اس پر خوش ہو گئے۔
عورت: خدا گواہ ہے کہ میں تم سے بڑی خوش ہوں۔
نقاب پوش: تو پھر میری خاطر عمر کا قصور معاف کر دے بہن کل قیامت کے دن اس کی شکایت کملی والے آقا سے نہ کرنا۔
عورت: مگر تمہیں امیر المومنین کی یہ اتنی پاسداری کیوں ہے۔
نقاب پوش: تم پہلے اسے معاف کر دو پھر میں اس پاسداری کی وجہ بتاؤں گا۔
عورت: اچھا تو میں نے اسے تمہاری خاطر معاف کر دیا مگر یہ دعا ضرور کروں گی کہ خدا اسے مسند خلافت سے ہٹائے اور تمہیں اس پر بٹھائے۔
نقاب پوش: تو بہن سن!و تمہاری یہ دعا بھی رائگا نہیں گئی۔
عورت: وہ کیسے؟
نقاب پوش: نقاب کو منہ سے ہٹاتے ہوئے ادھر دیکھو۔
عورت: (حیران ہوا سکتہ رہ کر) اے امیر المومنین خود۔
(منتخب کنز الاعمال حکایت صحابہ)
سبق
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت اللہ کی ایک رحمت تھی جس سے سب نے فائدہ اٹھایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے سچے بندے اور اللہ کے بندوں کے بہترین نگہبان تھے پھر جو حضرت عمر سے راضی نہیں وہ گویا اللہ کی رحمت پر راضی نہیں۔