غیبی آواز
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ملک میں اپنا لشکر جہاد کے لیے بھیجا اور اس لشکر کا افسر حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کو لے کر اس ملک میں گئے اور کافروں سے جہاد کرنے لگے۔
ادھر مدینہ منورہ میں ایک روز خطبہ دیتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آواز دی: اے ساریہ! پہاڑ کے ساتھ رہو اور پہاڑ کو اپنے پیچھے رکھو لوگ حیران ہوئے کہ خطبہ کے اندر یہ بے جوڑ بات کیسی ساریہ تو یہاں سے دور کسی ملک میں لڑ رہا ہے پھر یہاں اسے آواز دینے کا کیا معنی؟
تھوڑے دنوں کے بعد میدان جہاد سے ایک قاصد آیا اور اس نے بتایا: کہ ہمارا مقابلہ کافروں سے ہو رہا تھا اور کافر ہم پر غالب آرہے تھے کہ ہمیں ایک غیبی آواز سنائی دی۔
اے ساریہ! پہاڑ کے ساتھ رہو اور پہاڑ کو اپنے پیچھے رکھو چنانچہ ہم نے اس ہدایت پر عمل کیا اور پہاڑ کو پیچھے رکھ کر ہم نے اپنی پشت کو محفوظ کر لیا اور پھر دشمن سے ڈٹ کر مقابلہ کیا تو دشمن شکست کھا گیا اور اللہ نے ہمیں فتح بخش دی۔
سبق
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فاروق اعظم کی برکت سے مسلمانوں کو بڑی فتوحات حاصل ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خدا کے مقبولوں کی نظر کے سامنے کوئی چیز حجاب نہیں بنتی اور وہ دور کی چیزیں بھی دیکھ لیتے ہیں
اور اپنے بے کسوں کی مدد فرماتے ہیں اور ان کی امداد سے بگڑے ہوئے کام بھی سنور جاتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ والے دور کی آواز بھی سن لیتے ہیں جیسے کہ حضرت ساریہ نے حضرت عمر کی آواز سن لی۔