پیالے کی گمشدگی
بن یامین اپنے دسوں بھائیوں کے ساتھ غلہ لینے کے لیے مصر پہنچے تو بادشاہ مصر نے ان کی خوب خاطر مدارت کی اور ایک دعوت کا بھی انتظام کیا اس دعوت میں شاہ مصر بن یامین کے ساتھ بیٹھے اور یہ راز ظاہر کر دیا کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں۔
بنیامین یہ سن کر بڑے خوش ہوئے کہنے لگے: بھائی جان! اب آپ مجھے کسی ترکیب سے اپنے پاس ہی رکھ لیجئے اور جدا نہ کیجئے یوسف علیہ السلام نے فرمایا بہت اچھا۔
یوسف علیہ السلام نے پھر سب بھائیوں کو ایک ایک بار اونٹ غلہ دیا اور بنیامین کے حصے کا بھی ایک بار اونٹ غلط تیار کیا اس وقت بادشاہ کے پانی پینے کا جواہرات سے مرصع جو پیالہ تھا غلہ نہ اپنے کا کام اس پیالے سے لیا جا رہا تھا یہ پیالہ یوسف علیہ السلام نے بنیامین کے جاوے میں رکھوا دیا اور یہ قافلہ کنعان کے ارادہ سے روانہ ہو گیا۔
جب شہر سے باہر جا چکا تو ابنار خانہ کے کار کنواں کو معلوم ہو گیا کہ پیالہ نہیں ہے اب ان کے خیال میں یہی آیا کہ یہ قافلے والوں کا کام ہے چنانچہ انہوں نے جستجو کے لیے کچھ آدمی قافلے کے پیچھے بھیجے اور قافلہ کو روک لیا اور کہا کہ شاہی پیالہ نہیں ملتا ہے اور ہمیں آپ لوگوں پر شبہ ہے وہ بولے خدا کی قسم ہم ایسے لوگ نہیں ہیں انہوں نے کہا: اچھا تلاشی دو اگر وہ پیالہ تمہارے کجاوں میں سے کسی کجاوے سے نکل آیا تو پھر تمہیں کیا سزا دی جائے؟ وہ بولے: جس کے کجاوے سے پیالہ نکل آئے اس کے بدلے میں اس کو جاوے والے ہی کو اپنے پاس رکھ لینا۔
چنانچہ سامان کی تلاشی لی گئی تو پیالہ بنیامین کے کجاوے سے نکل آیا اور وہ دسوں بھائی بہت شرمندہ ہوئے اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے پیش کیے گئے تو وہ دسوں بھائی بولے: جناب! اس بنیامین نے اگر چوری کی ہے تو تعجب کی بات نہیں اس کا بھائی یوسف بھی چوری کر چکا ہے حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی یہ بات سن کر صبر فرمایا اور راز فاش نہیں فرمایا۔
پھر وہ دسوں بھائی کہنے لگے ہمارے والد صاحب بہت بوڑھے ہیں اور انہیں بنیامین سے بڑی محبت ہے اسی لیے آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو لے لیں اور اسے چھوڑ دیں یوسف علیہ السلام نے فرمایا: ہم اس کو لینے کے مستحق ہیں جس کے کجاوے میں ہمارا مال نکلا اس کے بدلے دوسرے کو لینا تو ظلم ہوگا۔
یہ سورتحال دیکھ کر وہ دسو بھائی اپس میں سرگوشیاں کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟ ان میں سے بڑا بولا: کہ ہم والد صاحب سے بنیامین کے بارے میں اللہ کا ذمہ دے کر آئے ہیں اب بنیامین کو نہ پا کر وہ ہمیں کیا کہیں گے میں تو یہیں رہتا ہوں اور تم جاؤ اور والد صاحب سے سارا واقعہ کہہ دو۔
چنانچہ بڑا بھائی وہیں رہا اور باقی واپس کنعان پہنچے اور حضرت یعقوب علیہ السلام سے وہ سارا واقعہ بیان کر دیا حضرت یعقوب علیہ السلام نے سارا قصہ سن کر صرف فرمایا: کہ اچھا میں تو اب بھی صبر ہی کروں گا اور عنقریب مجھے اللہ تعالی ان تینوں سے ملا دے گا فی یعقوب علیہ السلام الگ ہو کر یوسف علیہ السلام کو یاد فرمانے لگے۔
بیٹے بولے: ابا جان! کیا آپ ہمیشہ یوسف ہی کی یاد کرتے رہیں گے آپ نے فرمایا: میں اپنے غم کی فریاد اپنے اللہ ہی سے تو کرتا ہوں اور سن لو جو کچھ اپنے اللہ سے میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے میرے بیٹوں جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔
(قرآن کریم)
سبق
اللہ والے ہر حال میں صبر و شکر ہی سے کام لیتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یعقوب علیہ السلام کو اس بات کا علم تھا کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہیں اسی لیے فرمایا: کہ عنقریب اللہ مجھے ان تینوں سے ملا دے گا تینوں کون بنیامین اور وہ بڑا بھائی جو مصر رہ گیا تھا اور یوسف علیہ السلام اور اسی لیے فرمایا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے پھر جو شخص یہ کہے کہ یعقوب علیہ السلام وہ یوسف علیہ السلام کا علم نہ تھا وہ کس قدر خود ہی بے خبر اور بے علم ہے۔