یوسف و زلیخا
حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ بن گئے اور سارا مصر آپ کے زیر اختیار آگیا زلیخہ کے خاوند عزیز مصر کا انتقال ہو گیا اور زلیخا مایوس ہو پریشان خاطر ہو کر اپنے اقتدار کے دور کے کچھ زیورات ساتھ لے کر ایک جنگل میں چلی گئی اور جنگل میں ہی ایک کٹیا بنا لی جس میں رہنے لگی اب اس کا وہ حسن و جمال اور عالم شباب بھی باقی نہ رہا۔
یوسف علیہ السلام کے عروج جو اقتدار کے تو ڈنکے بجنے لگے اور زلیخا گوشہ گمنامی میں جا پڑی حضرت یوسف علیہ السلام ایک دن اپنے لشکر سمیت بڑی شان و شوکت و شہانہ جاہ و جلال کے ساتھ اس جنگل سے گزرے زلیخہ کو پتہ چلا تو اپنی کتیا سے نکلی اور حضرت یوسف علیہ السلام کو شاہانہ انداز سے گزرتے ہوئے دیکھ کر بے ساختہ بول پڑی۔
پاک ہے وہ ذات جس نے نافرمانی کے باعث بادشاہوں کو غلام بنا دیا اور فرمانبرداری کے صدقہ میں غلاموں کو بادشاہ بنا دیا ہے۔
زلیخا کی یہ آواز یوسف علیہ السلام نے سنی تو رو پڑے اور اپنی ایک غلام سے فرمایا: اس بڑھیا کی حاجت پوری کرو وہ غلام زلیخا کے پاس پہنچا اور کہا: کہ اے بڑھیا! تمہاری کیا حاجت ہے وہ بولی میری حاجت یوسف ہی پوری کر سکیں گے۔
چنانچہ! وہ غلام زلیخا کو شاہی محل میں ساتھ لے آیا حضرت یوسف علیہ السلام جب محل میں پہنچے اور آپ نے اپنا شاہی لباس اتارا اور اللہ کی عبادت کے لیے اپنے مصلے پر بیٹھے تو اس وقت آپ کو پھر وہی جملہ یاد آیا اور آپ رونے لگے۔
پھر غلام کو بلا کر پوچھا کہ اس بڑھیا کی حاجت پوری کی یا نہیں اس نے عرض کیا: حضور وہ بڑھیا یہیں آگئی ہے اور کہتی ہے کہ میری حاجت تو یوسف خود ہی پوری کریں گے فرمایا: اچھا اسے یہاں لے آؤ۔
چنانچہ زلیخا خدمت میں حاضر کی گئی اور اس نے حاضر ہوتے ہی سلام عرض کیا حضرت یوسف علیہ السلام نے سر جھکائے ہوئے ہی سلام کا جواب دیا اور پھر فرمایا: اے عورت! تمہاری جو حاجت ہو بیان کرو وہ بولی حضور کیا آپ مجھے بھول گئے؟ فرمایا: کون ہو تم؟ وہ بولی۔
اے یوسف! میں زلیخا ہوں حضرت یوسف علیہ السلام یوسف کا سن کر پکار اٹھے ۔
پھر آپ نے زلیخا سے پوچھا: کہ تمہارا وہ عالمی شباب اور حسن و جمال اور مال کہاں گیا؟ زلیخا نے جواب دیا: وہ لے گیا جس نے آپ کو جیل سے نکالا اور مصر کی حکومت آپ کو عطا فرمائی یوسف علیہ السلام نے فرمایا: اچھا تو بتاؤ اب تمہاری کیا حاجت ہے؟ وہ بولی: کیا آپ پوری فرما دیں گے؟ پہلے وعدہ کیجئے فرمایا: ہاں! ضرور پوری کروں گا وہ بولی تو سنیے تین حاجتیں ہیں۔
پہلی یہ کہ میں آپ کے غم فراق میں رو رو کر اندھی ہو چکی ہوں خدا تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ میری نظر مجھے واپس کر دے۔
دوسری یہ کہ میرا حسن و شباب مجھے واپس مل جائے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی اور مثل سابق وہ جوان اور حسین بھی ہو گئی۔
یوسف علیہ السلام نے فرمایا: بتا تیری تیسری حاجت کیا ہے؟
وہ بولی: اے یوسف! تیسری حاجت یہ ہے کہ آپ مجھ سے نکاح فرما لیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام خاموش ہو گئے اور سر انور جھکا لیا تھوڑی دیر کے بعد جبرائیل حاضر ہوئے اور کہا: اے یوسف! آپ کا رب آپ کو سلام فرماتا ہے اور فرماتا ہے زلیخا جو حاجت پیش کر رہی ہے اس کو پورا کرنے میں بخل سے کام نہ لو اس کی دو حاجتیں تیری دعا سے ہم نے پوری کر دی یہ تیسری حاجت اس کو تم پورا کر دو۔
اے یوسف! ہم نے تمہارے ساتھ اس کا نکاح عرش پر کر دیا ہے پس آپ اس سے نکاح کر لیجئے کہ دنیا و آخرت میں یہ آپ کی بیوی ہیں۔
چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بحق میں الہی حضرت ذلیخا سے نکاح کر لیا اور آسمانوں سے فرشتوں نے آکر مبارکباد دی اور خدا نے بھی مبارکباد فرمائی پھر زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام سے یہ بات بھی ظاہر کر دی کہ عزیز مصر عورت کے ناقابل تھا اور اللہ نے مجھے آپ کے لیے محفوظ و معمون رکھا ہے۔
چنانچہ حضرت زلیخا کے ہاں پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے دو صاحبزادے پیدا ہوئے ایک کا نام افرائیم اور دوسرے کا نام منشا تھا اور دونوں ہی حسن و جمال کے پیکر تھے۔
(روح البیان)
سبق
زلیخا کو اللہ تعالی نے حضرت یوسف کی خاطر عزیز مصر سے جو اس کا جائز شوہر تھا محفوظ رکھا پھر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبہ بیوی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ پر آج جو لوگ معاذ اللہ کسی قسم کا الزام لگائیں کس قدر گمراہ ہے جاہل اور بے دین ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت یوسف علیہ السلام سے حضرت زلیخہ کا نکاح اللہ کے حکم سے عرش پر پھر فرش پر بھی ہوا اور آپ کے بطن سے حضرت یوسف علیہ السلام کے دو فرزند بھی پیدا ہوئے۔