ساقی و باورچی
زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو تنگ کرنے کے لیے اور اپنی بات منوانے کے لیے کسی بہانے ان کو جیل بھیج دیا اسی دن جس دن حضرت یوسف علیہ السلام جیل بھیجے گئے دو نوجوان اور بھی جیل میں داخل کیے گئے یہ دونوں بادشاہ مصر عملقی کے خاص ملازم تھے ایک اس کا ساقی تھا اور ایک باورچی ان دونوں پر بادشاہ کو زہر دینے کا الزام تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل میں اپنے علم و فضل کا اظہار شروع فرما دیا اور توحید کی تبلیغ شروع فرما دی اور آپ نے یہ بھی ظاہر فرمایا: کہ میں خوابوں کی تعبیر بھی خوب سمجھتا ہوں چنانچہ وہ دو نوجوان جو آپ کے ساتھ ہی جیل میں داخل کیے گئے تھے کہنے لگے: آج ہم نے رات کو خواب دیکھے ہیں ان کی تعبیر بتائیے۔
ساقی نے کہا: میں نے دیکھا ہے کہ میں ایک باغ میں ہوں اور انگور کے خوشے میرے ہاتھ میں ہیں اور میں ان خوشوں سے شراب نچوڑتا ہوں۔
باورچی نے کہا: اور میں نے دیکھا ہے کہ میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن سے پرندے کھا رہے ہیں فرمائیے ان کی کیا تعبیر ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: اے ساقی! تو تو اپنے عہدے پر بحال کیا جائے گا اور حسب سابق اپنے بادشاہ کو شراب پلائے گا اور اے باورچی! تو سولی دیا جائے گا اور پرندے تیرا سر کھائیں گے۔
یہ تعبیر سن کر وہ دونوں کہنے لگے: خواب تو ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہم تو محض مذاق کر رہے تھے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: اب جو کچھ بھی ہو خواب تم نے دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو مگر میں نے جو کچھ کہہ دیا وہ ہو کر رہے گا اور اب میرا یہ کہنا کسی صورت نہیں ٹل سکتا۔
چنانچہ وہیں ہوا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا ساقی پر الزام ثابت نہ ہو سکا اور وہ اپنے عہدے پر بحال ہو گیا اور باورچی مجرم ثابت ہوا اور وہ سولی دیا گیا۔
(قرآن کریم)
سبق
پیغمبر کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ جو بات فرما دے وہ ہو کر رہتی ہے پھر جو یہ بات کہے کہ رسول کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا اور رسول نفع ضرر کا مالک نہیں کس قدر جاہل اور گمراہ ہے۔