میرا مالک مجھ سے غافل نہیں رہا
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی کہ جب تک اپنے دسترخوان پر کسی مہمان کو نہ بٹھا لیتے تھے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اکثر صبح اور شام کے وقت وہ شہر کے دروازے پر جا کر بیٹھے رہتے کہ کوئی مسافر مل جائے تو اسے اپنا مہمان بنائیں۔ اتفاق سے ایک دن کوئی مہمان نہ ملا اور شام کا وقت شروع ہونے لگا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام بہت افسوس میں بیٹھے ہوئے تھے اور اب واپسی کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک بوڑھے کو دیکھا جو لاٹھی ٹیکتا چلا ا رہا تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امید بندھی کہ شاید یہ مسافر ہو اور میرا مہمان بننا منظور کر لے۔ لپک کر اس کے پاس گئے اور سہارا دے کر اسے اپنے قریب لائے۔ حسب عادت سب سے پہلے اس کا نام دریافت کیا اور پوچھا کہ آپ کہاں سے تشریف لا رہے ہیں؟ بوڑھے نے جو اپنا نام بتایا تو ابراہیم علیہ السلام کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا کیونکہ نام سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بوڑھا آتش پرست ہے۔ بھلا خدا کے خلیل کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا تھا کہ ایک ایسے شخص کو اپنا مہمان بنائے اور اپنے دسترخوان پر جگہ دے جو اللہ تعالی کو چھوڑ کر آگ کا پجاری تھا۔
توحید تو جناب ابراہیم کی رگ رگ میں پیوست تھی۔ اپنے رب کی خاطر تو ابراہیم آگ کے علاوہ میں بے خطر کود چکے تھے۔ محض ایک خواب دیکھ کر ابراہیم نے اپنے اکلوتے بیٹے جناب اسماعیل علیہ السلام کے حلقوم پر چھری چلا دی تھی۔ وہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ ایک مشرک کے میزبان بنیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بوڑھے کی طرف سے رخ موڑ لیا اندھیرا چھا رہا تھا۔ بیچارا 70 سالہ آتش پرست کہاں جاتا؟ کس کے یہاں قیام کرتا۔ بڑا ہی فکر مند بیٹھا تھا آخر ہمت کر کے حرف مطلب زبان پر لایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے درخواست کی کہ اپ مجھے اپنا مہمان بنا لیں۔
ابراہیم علیہ السلام معمولی آدمی نہیں تھے۔ دین حنیف کے بانی، شرک و بت پرستی کے سخت دشمن، صاف جواب دے دیا میں نبی ہوں ایک مشرک کو اپنی پاک روٹی نہیں کھلا سکتا۔ البتہ اگر تو اسلام قبول کر لے آتش پرستی سے توبہ کر لے تو ایک دن کیا ساری زندگی تیری خدمت کرنے کو تیار ہوں۔ بوڑھا خاموش ہو گیا اور دوسری طرف چل پڑا۔ اب رات ا چکی تھی اس لیے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے مکان کی طرف روانہ ہوئے ابھی دو چار قدم ہی چلے ہوں گے کہ وحی نازل ہوئی۔
ابراہیم تم اس بوڑھے مجوسی کو ایک وقت بھی نہ کھلا سکے اور کھانے کے عوض اس سے دین کے بدلنے کا مطالبہ کر دیا. مجھے دیکھو کہ میں 70 برس سے اس کے شرک و کفر بغاوت اور طغیان کے باوجود اس کی پرورش کر رہا ہوں. اس کی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہوں وہ مجھے چھوڑ کر آگ کے آگے سجدہ کرتا اور اس کے حضور دست و دعا دراز کرتا ہے۔ ایک طرف اپنا ظرف دیکھو اور ایک طرف میرا ظرف۔
وحی آتے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام پلٹ پڑے اور اس بوڑھے کو جا لیا اور کہا جناب چلیے میں اپ کی میزبانی کے لیے تیار ہوں۔ آپ میرے مکان پر قیام فرمائیے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ وہ بوڑھا مجوسی حیران ہو گیا کہ انہوں نے اتنی جلدی اپنا فیصلہ کیوں واپس لے لیا۔ ابھی تو کہہ رہے تھے کہ اسلام قبول کر لو تو اپنا مہمان بناؤں گا اور ابھی مجھے لینے چلے آئے۔ پوچھا سچ سچ بتائیے آپ نے انکار کے بعد اپنی رائے کیوں بدل دی؟ ابراہیم علیہ السلام نے وحی آنے کا سارا قصہ کہہ سنایا۔
مجوسی کی آنکھیں بہنے لگی ندامت سے سر جھکا دیا اور کہا اللہ کے نبی! میں خدا کا باغی، میں آگ کا پجاری، میں اس کے در کو چھوڑ کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے والا، میں رسم و رواج کا اسیر، میں جھوٹے تو ہمات کا قیدی، حقیقی مالک کو 70 برس سے بھلا کر بھٹک رہا ہوں۔ میں نے اسے کبھی بھی یاد نہیں کیا اسے کبھی بھی نہیں پکارا مگر میرا مالک مجھ سے غافل نہیں رہا۔ اس نے مجھے میری نافرمانیوں کے باعث کبھی بھی اپنے خان نعمت سے نہیں اٹھایا، میری پرورش کی مجھے سہارا دیا حتی کہ آپ کو تنبیہ فرمائی۔
اب آپ اپنا ہاتھ بڑھائیے، مجھے قبول کر لیجئے۔ اس 70 برس کے گنہگار بھگوڑے کو اس کے مالک کے آستانے پر حاضر کیجئے۔ جلدی کیجئے، مجھے اسلام کا کلمہ پڑھائیے، میرا مالک غفور الرحیم ہے وہ مجھے ضرور قبول کر لے گا۔