حضرت موسی اور حضرت خضر علیہم السلام
حضرت موسی علیہ السلام نے ایک مرتبہ بنی اسرائیل میں بڑا فصیح و بلیغ وعظ فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ اس وقت میں بہت بڑا عالم ہوں حضرت موسی علیہ السلام کا یہ فرمانا خدا کو بھی نہ بھایا اور حضرت موسی سے فرمایا: اے موسی! تم سے زیادہ عالم میرا بندہ خضر ہے حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت خضر سے ملاقات کا شوق ظاہر کیا اور خدا سے اجازت لے کر حضرت خضر کو ملنے کے لیے روانہ ہو گئے۔
حضرت موسی اور حضرت خضر علیہم السلام خدا نے مدد فرمائی اور حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کو پا لیا اور ان سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کے علم سے میں بھی کچھ مصطفیض ہو جاؤں حضرت خضر نے جواب دیا: کہ آپ میرے ساتھ رہ کر کئی ایسی باتیں دیکھیں گے کہ آپ ان پر صبر نہ کر سکیں گے حضرت موسی نے فرمایا: نہیں میں صبر کروں گا آپ مجھے اپنے ساتھ رہنے دیجئے۔
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: تو پھر میں چاہے کچھ بھی کروں آپ میری بات میں دخل نہ دیں گے فرمایا: منظور ہے اور آپ ساتھ رہنے لگے ایک روز دونوں چلے اور کشتی پر سوار ہوئے کشتی والے نے حضرت خضر کو پہچان کر مفت بٹھا لیا مگر حضرت خضر علیہ السلام نے اس کی کشتی کو ایک جانب سے توڑ دیا اور عیب دار کر دیا۔
حضرت موسی علیہ السلام یہ بات دیکھ کر بول اٹھے کہ جناب! یہ آپ نے کیا کیا؟ کہ ایک غریب شخص کی جس نے بٹھایا بھی ہمیں مفت ہے آپ نے کشتی توڑ دی حضرت خضر بولے موسی! میں نے کہا تھا کہ آپ سے صبر نہ ہو سکے گا اور میری باتوں میں آپ دخل دیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔
حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا: یہ مجھ سے بھول ہو گئی ہے آئندہ محتاط رہوں گا پھر چلے تو راستے میں ایک لڑکا ملا حضرت خضر نے اس لڑکے کو قتل کر ڈالا حضرت موسی پھر بول اٹھے کہ اے خضر! یہ تم نے کیا کیا ؟ایک بچے کو مار ڈالا حضرت بولے موسی آپ پھر بولے جائیے میرا اور آپ کا ساتھ مشکل ہے حضرت موسی فرمانے لگے ایک بار اور موقع دیجئے اب اگر بولا: تو مجھے الگ کر دینا۔
چنانچہ پھر چلے تو ایک ایسے گاؤں میں پہنچے جس گاؤں کے باشندوں نے حضرت موسی اور حضرت خضر علیہ السلام کو کھانا تک نہ پوچھا بلکہ انہوں نے کھانا طلب فرمایا تو انہوں نے انکار کر دیا۔
اس گاؤں میں ایک شکستہ مکان کی دیوار گرنے والی تھی حضرت خضر نے اس دیوار کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کر کے مضبوطی سے قائم کر دیا حضرت موسی علیہم السلام نے دیکھا کہ یہ گاؤں والے تو اتنے بخیل ہیں کہ کھانا تک دینے کو تیار نہیں اور یہ فطر اس قدر شفقت پر اتر آئے ہیں کی ان کی گرنے والی دیواریں قائم کرنے لگے ہیں یہ دیکھ کر پھر بول اٹھے اے خضر! اگر اپ چاہتے تو اس دیوار کے کھڑا کر دینے کی آپ ان سے اجرت بھی لے سکتے تھے۔
مگر آپ نے تو مفت کام کر دیا حضرت خضر بولے موسی بس اب میری اور آپ کی جدائی ہے لیکن جدا ہونے سے پہلے ان باتوں کی حکمت بھی سنتے جائیے۔
وہ جو میں نے کشتی کو تھوڑا سا توڑ دیا تھا اس کی حکمت یہ تھی کہ دریا کے دوسرے کنارے ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ثابت کشتی زبردستی چھین لیتا تھا مگر جس کشتی میں کوئی عیب ہوتا اسے نہیں چھینتا تھا کشتی والے کو اس بات کا علم نہ تھا میں اگر کشتی کا کچھ حصہ نہ توڑتا تو اس غریب کی ساری کشتی چھین لی جاتی۔
اور وہ لڑکا جو میں نے مار ڈالا اس کی حکمت یہ تھی کہ اس کے نہ باپ مسلمان تھے اور یہ لڑکا بڑا ہو کر کافر نکلے گا اور اس کے ماں باپ بھی اس کی محبت میں دین سے پھر جائیں گے تو میں نے ارادہ کر لیا کی اس کے ماں باپ کو تو اللہ سے بہتر لڑکا دے اور اسے میں نے مار ڈالا تاکہ اس کے ماں باپ اس فتنہ سے محفوظ رہیں۔
اور جو میں نے گاؤں میں گرنے والی دیوار کو سیدھا کر دیا اس کی حکمت یہ تھی کہ وہ دیوار شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھیاور اس کے پیچھے ان کا خزانہ تھا اور باپ ان کا بڑا صالح تھا تو رب کی یہ مرضی تھی کہ دونوں بچے جوان ہو جائیں اور اپنا خزانہ آپ نکال لیں یہ تھی ان باتوں کی حکمت جو آپ نے دیکھی۔
(قرآن کریم)
سبق
دین کی باتوں میں ضرور کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے اور آدمی کو علم کی تلاش جاری رکھنی چاہیے چاہے وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے مقبول بندوں کو یہ علم ہوتا ہے کہ فلاں بچہ بڑا ہو کر مومنیہ کافر ہوگا۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے مقبول بندے جس بات کا ارادہ کر لیں خدا ویسے ہی کر دیتا ہے کیونکہ حضرت خضر علیہ السلام نے اس لڑکے کو قتل کر کے یوں فرمایا پس ہم نے ارادہ کر لیا کہ ان دونوں کا رب انہیں اس سے بہتر عطا فرمائے گا چنانچہ خدا نے حضرت خضر علیہ السلام کے ارادے کے مطابق ان دونوں کو اس سے بہتر بچہ عطا فرما دیا۔