قاتل کی رہائی
بغداد کے حاکم ابراہیم بن اسحاق نے ایک رات خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حضور نے اسے فرمایا قاتل کو رہا کر دو یہ حکم سن کر حاکم بغداد کانپتا ہوا اٹھا اور ماتحت عملہ سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا مجرم بھی ہے جو قاتل ہو؟ انہوں نے بتایا: کہ ہاں ایک ایسا شخص بھی ہے جس پر الزام قتل ہے۔
حاکم بغداد نے کہا: اسے میرے سامنے لاؤ چنانچہ اسے لایا گیا حاکم بغداد نے پوچھا: کہ سچ سچ بتاؤ واقعہ کیا ہے؟ اس نے کہا: سچ کہوں گا جھوٹ ہرگز نہ بولوں گا بات یہ ہوئی ہے کہ چند آدمی مل کر عیاشی و بدمعاشی کیا کرتے تھے ایک بوڑھی عورت کو ہم نے مقرر کر رکھا تھا جو ہر رات کسی بہانے سے کوئی نہ کوئی عورت لے آتی تھی ایک رات وہ ایک ایسی عورت کو لائی جس نے میری دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔
بات یہ ہوئی کہ وہ نووارد عورت جب ہمارے سامنے آئی تو چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی میں نے اسے اٹھا کر ایک دوسرے کمرے میں لا کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی۔
اور جب وہ ہوش میں آئی تو اسے چیخنے اور بے ہوش ہونے کی وجہ پوچھی وہ بولی: اے نوجوان! میرے حق میں اللہ سے ڈر پھر کہتی ہوں گی اللہ سے ڈر یہ بڑھیا تو مجھے بہانے ہی بہانے سے اس جگہ لے آئی ہے دیکھ میں ایک شریف عورت ہوں اور سیدہ ہوں میرے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میری ماں فاطمۃ الزہرا ہیں خبردار! اس نسبت کا لحاظ رکھنا اور میری طرف بد نگاہی سے نہ دیکھنا۔
میں نے جب اس پاک عورت سے جو سیدہ تھی یہ بات سنی تو لرز گیا اور اپنے دوستوں کے پاس آکر انہیں حقیقت حال سے آگاہ کیا اور کہا: کہ اگر عاقبت کی خیر چاہتے ہو تو اس مکرمہ و معظمہ خاتون کی بے ادبی نہ ہونے پائے میرے دوستوں نے میرے اس واسطے یہ سمجھا کہ شاید میں ان کو ہٹا کر خود تنہا ہی ارتکاب گناہ کرنا چاہتا ہوں اور ان سے دھوکا کر رہا ہوں اس خیال سے وہ مجھ سے لڑنے پر امادہ ہو گئے۔
میں نے کہا: میں تم لوگوں کو کسی صورت میں اس امر شینا کی اجازت نہ دوں گا لڑوں گا مر جاؤں گا مگر اس سے پردہ دار کی طرف بد نگاہی منظور نہ کروں گا چنانچہ وہ مجھ پر جھپٹ پڑے اور مجھے ان کے حملہ سے ایک زخم بھی آگیا۔
اور اسی اثنا میں ایک شخص جو اس سیدہ کے کمرہ کی طرف جانا چاہتا تھا میرے روکنے پر مجھ پر جو حملہ اور ہوا تو میں نے اس پر چھری سے حملہ کر دیا اور اسے مار ڈالا پھر اس سیدہ کو اپنی حفاظت میں لے کر باہر نکلا تو شور مچ گیا چھری میرے ہاتھ میں تھی میں پکڑا گیا اور آج یہ بیان دے رہا ہوں۔
حاکم بغداد نے کہا: جاؤ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے رہا کیا جاتا ہے۔
(حجۃ اللہ العالمین)
سبق
ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ہر نیک و بد آدمی اور ہر نیک و بد عمل کو جانتے ہیں اور دیکھتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور کی نسبت کے لحاظ و ادب سے آدمی کا انجام اچھا ہوتا ہے لہذا ہر اس چیز کا دل میں ادب و احترام رکھنا چاہیے جس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق ہو۔ اسی لیے ہمارے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ایک چیز کے لیے نسبت اور عقیدت و محبت ہونی چاہیے اور اس کا ادب و احترام بہت ہی زیادہ ضروری ہے۔