حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ملک الموت
حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال شریف کا جب وقت آیا تو ملک الموت جبرائیل کی معیت میں حاضر ہوا جبرائیل امین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ ملک الموت آیا ہے اور آپ سے اجازت طلب کرتا ہے حضور اس نے آج تک کبھی نہ کسی سے اجازت لی ہے اور نہ آپ کے بعد کسی سے اجازت لے گا۔
حضور اگر اجازت دیں تو یہ اپنا کام کرے حضور نے فرمایا: ملک الموت کو آگے آنے دو چنانچہ ملک الموت آگے بڑھا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ! اللہ تعالی نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں آپ کا ہر حکم مانو اور جو آپ فرمائیں وہی کروں لہذا اگر آپ فرمائیں تو میں روح مبارک قبض کروں ورنہ واپس چلا جاؤں۔
جبرائیل نے عرض کیا: حضور خداوند کریم آپ کے وصال کو چاہتا ہے اور حضور نے فرمایا: تو اے ملک الموت! تمہیں جان لینے کی اجازت ہے جبرائیل بولے حضور اب جب کی آپ تشریف لے جا رہے ہیں تو پھر زمین پر میرا یہ آخری پھیرا ہے اسی لیے کہ میرا مقصود تو آپ ہی تھے اس کے بعد ملک الموت قبض روح انور کے شرف سے مشرف ہوا۔
(مشکوۃ شریف)
سبق
ہمارے حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی بڑی شان ہے کہ وہ ملک الموت جس نے کبھی کسی بڑے سے بڑے بادشاہ سے بھی اجازت نہیں لی ہمارے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے اجازت طلب کرتا ہے اور یوں کہتا ہے کہ اگر آپ فرمائیں تو جان لو ورنہ واپس چلا جاؤں۔
اور خدا اسے یہ حکم دے کر بھیجتا ہے کہ میرے محبوب کی اطاعت کرنا جو وہ فرمائے وہی کرنا باوجود اس کے جو گستاخ حضور کو اپنے مثل کہتے ہیں کس قدر گمراہ ہیں کیا کبھی ان سے بھی ملک الموت نے اجازت لی ہے۔