رکانہ پہلوان
بنی ہاشم میں ایک مشرک شخص رکانہ نامی بڑا زبردست اور دلیر پہلوان تھا اس کا ریکارڈ تھاکی اسے کسی نے نہ ہرایا تھا وہ ایک جنگل میں جسے اضم کہتے تھے رہا کرتا تھا بکریاں چراتا تھا اور بڑا مالدار تھا۔
ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اس طرف جا نکلے رکانہ نے آپ کو دیکھا تو آپ کے پاس آکر کہنے لگا: اے محمد! تو ہی وہ ہے جو ہمارے لا ت عزیٰ کی توہین و تحقیر کرتا ہے اور اپنے ایک خدا کی بڑائی بیان کرتا ہے اگر میرا تجھ سے تعلق رحمی نہ ہوتا تو آج میں تجھے مار ڈالتا ا میرے ساتھ کشتی کر تو اپنے خدا کو پکار میں اپنے لات و عزیٰ کو پکارتا ہوں دیکھیں تو تمہارے خدا میں کتنی طاقت ہے حضور نے فرمایا: رکانہ اگر کشتی ہی کرنا ہے تو چل میں تیار ہوں رکانہ یہ جواب سن کر اول تو حیران ہوا اور پھر بڑے غرور کے ساتھ مقابلے میں کھڑا ہو گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی ہی جھپٹ میں اسے گرا لیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گئے رکانہ عمر میں پہلی مرتبہ گر کر بڑا شرمندہ بھی ہوا اور حیران بھی اور بولا: اے محمد! میرے سینے سے اٹھ کھڑا ہو میرے لات و عزیٰ نے میری طرف دھیان نہیں کیا ایک بار اور موقع دو اور آؤ دوسری مرتبہ کشتی لڑیں حضور سینے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دوبارہ کشتی کے لیے رکانہ بھی اٹھا حضور نے دوسری مرتبہ بھی رکانہ کو پل بھر میں گرا لیا۔
رکانا نے کہا: اے محمد! معلوم ہوتا ہے آج میرا لات و عزیٰ مجھ پر ناراض ہے اور تمہارا خدا تیری مدد کر رہا ہے خیر ایک مرتبہ اور آؤ اب کی دفعہ لات ضرور میری مدد فرمائیں گے حضور نے تیسری مرتبہ کی کشتی بھی منظور فرمائی اور تیسری مرتبہ بھی حضور نے اسے پچھاڑ دیا اب تو رکانہ بڑا ہی شرمندہ ہوا اور بولا: اے محمد! میری ان بکریوں میں جتنی چاہو بکریاں لے لو حضور نے فرمایا: رکانہ مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں ہاں مسلمان ہو جاؤ تاکہ جہنم سے بچ جاؤ۔
وہ بولا: یا محمد! مسلمان تو ہو جاؤں گا مگر نفس جھجکتا ہے کہ مدینہ اور نواہ کی عورتیں اور بچے کیا کہیں گے کہ اتنے بڑے پہلوان نے شکست کھائی اور مسلمان ہو گیا۔
حضور نے فرمایا: تو تیرا مال تجھی کو مبارک یہ کہہ کر آپ واپس تشریف لے آئے ادھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آپ کی تلاش میں تھے اور یہ معلوم کر کے کی حضور وادی اضم کی طرف تشریف لے گئے ہیں متفکر تھے کی اس طرف رکانہ پہلوان رہتا ہے مبادہ حضور کو ایذا دے حضور کو واپس تشریف لاتے دیکھ کر دونوں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ادھر اکیلے کیوں تشریف لے گئے تھے۔
جب کہ اس طرف رکانہ پہلوان جو بڑا زور اور دشمن اسلام ہے رہتا ہے حضور یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا: جب میرا اللہ ہر وقت میرے ساتھ ہے پھر کسی رکانہ پہلوان کی کیا پرواہ لو اس رکانہ کی پہلوانے کا قصہ سنو چنانچہ حضور نے سارا قصہ سنایا صدیق و فاروق سن سن کر خوش ہونے لگے اور عرض کیا: حضور وہ تو ایسا پہلوان تھا کہ آج تک اسے کسی نے گرایا ہی نہ تھا اسے گرانا اللہ کے رسول ہی کا کام ہے۔
سبق
ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر فضل و کمال کے منبع ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت حضور کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتی اور مخالفین کہ دل بھی حضور کے فضل و کمال کو جانتے ہیں لیکن دنیا کی آر سے اس کا اقرار نہیں کرتے۔