یہ خدائی جذب عام جذب نہیں ہوتا

یہ خدائی جذب عام جذب نہیں ہوتا

مجنوں نے سنا کی لیلہ آرہی ہے تو وہ اس کے استقبال کے لیے نکلا جس اونٹنی پر وہ سوار ہوا اس کے بچے کو گھر چھوڑ گیا راستہ میں اس کی اونٹنی کی کشمکش شروع ہو گئی اونٹنی گھر کی جانب وہ واپس لوٹنا چاہتی تھی تاکہ اپنے بچے کے پاس پہنچ سکے اور مجنوں چاہتا تھا کہ اونٹنی آگے بڑھے تاکہ اسے لیلی کا وصال نصیب ہو۔

مجنوں ذرا سا غافل ہوتا تو اونٹنی پیچھے کی جانب پلٹ جاتی چونکہ مجنوں کا جسم عشق سے پر تھا اسی لیے وہ اونٹنی کی ایسی حرکت سے بے ہوش ہوا جاتا تھا انسان کی عقل اس کے تمام امور کی نگرانی کرتی ہے مگر مجنوں تو عشق میں بے عقل ہو چکا تھا اونٹنی ہوش میں تھی جب وہ دیکھتی تھی اس کی مہار ڈھیلی ہوئی ہے وہ فورا سمجھ جاتی کہ مجنوں غافل ہے اور وہ پیچھے کی جانب پلٹ جاتی جب مجنوں کو ہوش آتا تو وہ دیکھتا کہ اونٹنی تو واپس جا رہی ہے۔

مجنوں اس حالت میں مبتلا رہا پھر اس نے سوچا کہ دو متضاد سمتوں کے عاشقوں کا باہمی سفر اکٹھے نہیں گزر سکتا اونٹنی اس کا راستہ کھوٹا کر رہی تھی اور یہ اونٹنی اس کے لیے خرابی کا باعث ہی مجنوں نے اونٹنی کو چھوڑ دیا اور خود پیدل چل پڑا۔یہ خدائی جذب عام جذب نہیں ہوتاپس جو شخص جسم کا ساتھ نہیں چھوڑے گا وہ گمراہ ہی رہے گا جان اور جسم کی بھی خواہشات جدا گانا ہے اور ان دونوں کا ساتھ اکٹھے نہیں چل سکتا جان کی پرواز عالم بالا کی جانب ہے اور جسم کو زمین پسند ہے جب تک انسان کی روح جسم میں رہے گی وہ اپنے مقصد حقیقی کو نہیں پا سکے گا۔

حکیم ثنائی کا قول ہے کہ اللہ عزوجل کا عشق لیلی کے عشق سے کم نہیں ہے جب مجنوں لیلی کے عشق میں اونٹنی کو چھوڑ سکتا ہے تو اللہ عزوجل کے عشق میں جسم کو اور اس کی سواری کو تم نہیں چھوڑ سکتے۔

اللہ عزوجل کے راستے کا گیند بن جاؤ اور لڑتے ہوئے اس کی بارگاہ میں پہنچ جاؤ اس سفر میں کوشش شروع کرنا تمہارا کام ہے پھر اللہ عزوجل کی کوشش خود ہی تمہارے لیے آسانی پیدا کر دے گی جذب خداوندی سے جو رفتار ملے گی وہ محض عطائے خداوندی ہے یہ خدائی جذب عام جذب نہیں ہوتا جو ہر راستے میں حاصل ہو جائے یہ وہ جذب ہے جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہربانی نے قائم کیا ہے اور ان کے جانشینوں کو حاصل ہے۔

وجہ بیان

مولانا رومی رحمہ اللہ علیہ کی شکایت میں مجنوں کے عاشق کی کیفیت بیان کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دو متضاد سمتوں کے عاشق کبھی ہم سفر نہیں کرتے جو شخص جس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا وہ گمراہی میں مبتلا رہے گا اور جسم اور جان کے خواہشات جداگانہ ہیں یہ خدائی جذب عام جذب نہیں ہوتا جب تک انسان کے جسم میں روح رہے گی وہ اپنے مقصد کو ہرگز خوا نہیں سکے گا اللہ عزوجل کے راستہ میں چلنا شروع کرو تو یقینا تم بارگاہ الہی تک پہنچ جاؤ گے اس سفر میں کوشش شروع کرنا تمہارا کام ہے پھر عشق الہی کی کشش تمہاری باقی منزلیں خود بخود اسان بنا دے گی۔

حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ موت کو عبدی زندگی سمجھتے تھے

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top