اپنے نفس کی دیوار گرانے کے بعد ہی آب حیات تک پہنچ سکو گے
ایک نہر کے کنارے اونچی دیوار تھی جس پر ایک مصیبت کا مارا ہوا پیاسا بیٹھا تھا یہ ایک مست اور بے چین عاشق تھا جو پیاس اور پانی کی طلب سے کمزور ہوا لاغر ہو چکا تھا یہ دیوار جس پر وہ بیٹھا تھا پانی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی حالانکہ پانی کے لیے وہ مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔
اس کی وہ دیوار پانی کی آڑ تھی اور پانی کے لیے اس کی دردناک فریاد آسمان تک جا پہنچی اچانک اس نے پانی میں ایک اینٹ پھینکی طلب میں شدت تھی اسی لیے اس کے کان میں پانی کی ایسی آواز گونجی جس طرح کوئی دوست میٹھی اور پرلطف گفتگو کر رہا ہو پانی کی طلب میں پانی کی اس آواز نے بھی اسے بے خود کر دیا اور وہ آواز کو سننے کی کوشش میں اس دیوار سے اینٹیں اکھاڑ اکھاڑ کر پانی میں پھینکنے لگا پانی نے اس پیاسے سے کہا کہ مجھ پر اس طرح اینٹیں مارنے سے تجھے کیا حاصل؟پیاسے نے کہا: کہ میرے اس میں دو فائدے ہیں اسی لیے میں اس کام سے باز نہ آؤں گا میرا اول فائدہ یہ ہے کہ اس طرح مجھے تیری آواز سنائی دیتی ہے جو پیاسے کے لیے ابر رحمت سے کم نہیں اور جس طرح اللہ عزوجل کی وہ گفتگو جو عین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک بغیر منہ کے پہنچتی ہے یا ایسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو جو ایک گنہگار کو شفاعت کے وقت پہنچے گی میرا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہر اینٹ جو میں اس دیوار سے اکھاڑ کر تجھ تک پھینک رہا ہوں اس طرح میں تجھ سے نزدیک سے نزدیک تر ہوتا جا رہا ہوں اور اینٹیں اکھاڑنا مجھے تیرے قرب کا سبب بنا رہا ہے۔
بس اس حکایت کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اب حیات جس تک تم پہنچنا چاہتے ہو وہ اپنے نفس کی دیوار کو گرانے کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔
جس شخص میں محبوب کی طلب سچی ہوگی وہ اپنے نفس کی اس دیوار کی اینٹوں کو یوں ہی اکھاڑتا رہے گا اور جو اپنے محبوب کی آواز میں سچا ہوگا وہ اس کی آواز پر زیادہ عاشق ہوگا یہاں تک کہ محبوب کی راہ میں حائل دیوار گر جائے گی پھر اس کے اور محبوب کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو پائے گی۔
جوانی کا وقت ایسا وقت ہے جب مجاہدوں سے زمین سرسبز ہو جاتی ہے اور برے اخلاق و رکاوٹوں کی اینٹیں اکھاڑ دینی چاہیے اسی لیے ریزہ ریزہ ہو جانے والی ست زمین بن جانے کی حالت سے پہلے ہی عمل کر لینا چاہیے جب ہر بنی ہوئی چیز اپنے بنانے والے کی ذات کی دلیل ہے تو کوئی موجود شے غیر موجود سے کیوں کر وجود حاصل کر سکتی ہے۔
تمام موجودات اسی باغ سے غذا حاصل کرتے ہیں جو خواہ برا کا عربی گھوڑے یا گدھے ہی کیوں نہ ہوں بات یہ ہے کہ اپنے نفس کے اندھے گھوڑے کو لگام دو جو باغ کو نہیں دیکھ سکتا۔جس نے گردش زمانہ اسباب عالم کو بحر حقیقت یانی من جانب اللہ نہ جانا وہ ہر دم نئے ہیں قبلہ کی تلاش میں رہتا ہے اور اس کا حال ایسا ہے جیسے اس نے شیرین دریا سے بھی کھارا پانی ہی پیا ہو مجبوری یہ ہے کہ ہر شمس دی رحمت اللہ علیہ کے عاشق میں محویت کے باعث بیس بسوا معذور ہیں ورنہ ہم اس حق نہ شناس کو بنا کر دیتے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں اپنی دلی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب سے میری ملاقات حضرت شمس الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی ہے میری دلی کیفیت بدل گئی نیز جوانی کا وقت ایسا وقت ہے جب مجاہدوں کے ذریعے انسان خود میں نکھار پیدا کر سکتا ہے اپنے نفس کے اندھے گھوڑے کو لگام دو اور مجاہدات کے ذریعے خود کو پختہ کرو کسی شخص کامل کی صحبت اختیار کرو کہ اس کی صحبت میں رہ کر تم اعلی و عرفہ مقام کے حقدار بن سکو گے اپنے نفس کی دیوار گرانے کے بعد ہی تم آب حیات تک پہنچ سکو گے جس شخص کی طلب سچی ہوگی اس کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں خود بخود دور ہو جائیں گی۔