لوگوں کے لیے ان کی نظر بد بھی عشق سےما نع بنی ہے
ضیاء الحق؛ حسام الدین مثنوی کو کشادہ میدان عطا کر دیجئے دنیا میں آپ رحمۃ اللہ علیہ حضرت خضر علیہ السلام کی مانند ہیں آپ رحمۃ اللہ علیہ پریشان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور بے کسوں کی دستگیری فرماتے ہیں لوگوں کی نظر بد کی وجہ سے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے معمولی احوال کا بیان نہیں کرتا لوگوں کے لیے ان کی نظر بد بھی عشق سے مانع بنی ہے حضرت ابو طالب لوگوں کے کانوں کی وجہ سے ایمان نہ لائے کہ کہیں لوگ کہیں کی انہوں نے سرداری کو خاک میں ملا دیا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اے چچا! چپکے سے کلمہ پڑھ لیں مجھے آپ کی سفارش کا حق حاصل ہو جائے گا حضرت ابو طالب نے کہا کہ راز راز نہیں رہے گا اور مشہور ہو جائے گا کہ میں عربوں کی زبان میں ہمیشہ کے لیے بد نام ہو جاؤں گا اگر ان کے دل پر ازلی مہربانی ہوتی تو یقینا وہ حق کے جذبے کے سامنے یوں بے دلی کا مظاہرہ نہ کرتے اختیار کے دوراہے سے صرف انسان کو ہی پریشانی لاحق نہیں بلکہ اہل آسمان بھی پریشان ہیں۔دو رائے سے بہتر ہے کہ اللہ عزوجل صراط مستقیم کا ایک راستہ عطا فرمائے اگرچہ اسی اور متعی دونوں اسمائ الہی کا مظہر ہیں لیکن تشریعا مطلوب اطاعت ہے معصیت کا تعلق قہر سے ہے اور اطاعت کا مہر سے لہذا دونوں یکساں نہیں ہیں۔
قرآن مجید میں جو امانت آسمانوں اور زمینوں نے لینے سے انکار کر دی وہ یہی اختیار کا دورہ تھا کیونکہ اس سے انسان خوف اور بھلائی کی باہمی کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے اور درد و کی حالت میں اللہ عزوجل اپنا رحم فرمائے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں اپنے مرشد کامل حضرت شمس الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کر رہے ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ میرے لیے حضرت خضر علیہ السلام کی مانند ہیں آپ دعا کریں کہ میری مثنوی لوگوں کے لیے کشادگی کا باعث بن جائے لوگوں کے لیے ان کی نظر بد بھی عشق سے منع بنی ہے۔
اور حضرت ابو طالب لوگوں کے تعنوں کے خوف کی وجہ سے ایمان نہ لائے دورہ ہے کہ بدولت ہی انسان خوف اور بھلائی کی کشمکش میں مبتلا ہے اور اس دورہ ہے اس سے بہتر ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں صراط مستقیم کا سیدھا راستہ عطا فرما دے۔